تحریر: فرح دیبا ہاشمی کائنات کا نظام ہے کہ حیوانات اور نباتات حیاتیاتی عوامل کے ذریعے اپنی نسل بڑھاتے ہیں ۔ جیسے کہ قرآن پاک ارشاد ہے کہ پاک ہے وہ ذات جس نے سب جوڑے بنائے ان چیزوں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان سے (انسانوں ) اور ان چیزوں سے جن کی انہیں خبر نہیں (سورئہ یاسین آیت نمبر ٣٦)۔ فرق اتنا ہے کہ نباتات خود ساختہ عمل سے بڑھتے ہیں بلا شرکت غیر ،جبکہ حیوانات یعنی انسان اور جانوروں کو قبل از پیدائش اور بچپن کے عرصے میں والدین خصوصاماں کی شدید ضرورت رہتی ہے ۔ قبل از پیدائش کے عرصے سے ہی بچہ اپنی ماں سے جسمانی اور جذباتی وابستگی رکھتا ہے ماں کا طرز زندگی ،ذہنی حالات ،اور بیرونی ماحول اس پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ ماں کی خوراک سے اپنی ضرورت حاصل کرتا ہے اور نشوونما پاتا ہے۔
بعد از پیدائش بچے کو دنیا میں زندہ رکھنے کے لئے ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس پر بیشمار تحقیقات موجود ہیں کہ پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد ماں کا دودھ بچے میں قوت اور بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے اور جو بچے مکمل دو یا سوا دو سال ماں کا دودھ پیتے ہیں وہ ڈبے کا دودھ پینے والے بچوں سے ذہنی اور جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں ۔اس عرصے میں اگر بچہ بے سکون ہو تو ماں کی گود اور اس کی دھڑکن کی آواز اسے سکون دیتی ہے اور بچہ پر اعتماد ہوتا ہے ۔ بچپن میں والدین بچے کو ذہنی اور جسمانی افعال میں مدد دیتے ہیں والدین بچے کو بیٹھنا ،چلنا ،پھرنا سکھاتے ہیں انگلی پکڑ کر بھی ہر قدم محتاط کہ وہ گر نہ جائے۔ماں اپنی رات بھر کی نیند اس پر قربان کر دیتی ہے کہ اس کا جگر گوشہ آرام سے سو سکے اور صبح صحن اس کی قلقاریوں سے گونجے والدین ہر دور اور ہر عمر میں اپنے بچے کو مکمل انسان اور پر اعتماد شخصیت بنانے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں ۔یہاں مجھے عباس تابش کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔ ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
Parents
ماں کے کردار کے علاوہ باپ بھی اپنی ساری عمر صرف اس لئے محنت کی نذر کر دیتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو حسب توفیق دنیا کی چھوٹی بڑی خوشیاں دے پائے ۔میں نے بچپن میں ایک چھوٹی سی کہانی سنی تھی کہ جس کی حقیقت کا زندگی کے نشیب و فراز میں ہر کسی نے تجربہ کیا ہو گا ۔کہانی کچھ اس طرح ہے پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بچہ اپنے باپ کے ساتھ بازار سے گزرا تو کھلونے والے نے ایک ٹکے کا کھلونا کی آواز لگائی بچے نے خرگوش لینے کی ضد کی تو باپ نے یہ کہہ کر بچے کو تسلی دی کہ یہ بہت مہنگا ہے پھر کبھی لے لیں گے ۔کچھ عرصہ بعد بچہ جب باپ کے ہمراہ پھر بازار سے گزرا اب کی بار کھلونے والے نے ایک روپیہ کا کھلونا کی آواز لگائی بچے کے کہنے پر باپ نے ایک کی بجائے دو خرگوش دلوائے بچے کے استفسار پر باپ نے وضاحت کی کہ بیٹا کچھ عرصہ پہلے میرے پاس ایک ٹکہ بھی نہیں تھا اس لئے اس وقت یہ کھلونا مہنگا تھا اب حالات اچھے ہیں اب جتنے چاہو لے لو۔
اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کو اپنے بچے کی خوشی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ۔والدین تمام عمر اپنی خواہشات دبا کر بچوں کی خوشی پوری کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں ۔ہر عید تہوار پر حسب حثیت بچوں کو نئے کپڑے اور جوتے اس لئے لے کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں سے پیار جتا سکیں اور بچے پر اعتماد انداز سے دنیا کا سامنا کر سکیں چھوٹے بچوں کو باپ اکثر انگلی پکڑ کر بازار یا گلی میں لے جاتے ہیں تا کہ وہ اپنے بچے کو اعتماد دے سکیں اور وہ معاشرے میں پر اعتماد طریقے سے نشو و نما پائیں ۔عمر کے ابتدائی حصے میں جب بچے بولنا شروع کرتے ہیں تو والدین ان کا ہر لفظ ، ہر ادھورا جملہ پوری توجہ سے سنتے اور سمجھتے ہیں ۔ لفظوں کی اس بڑی دنیا میں والدین ہی انہیں اعتماد دیتے ہیں کہ وہ دنیا کے سامنے بڑی بڑی باتیں کرنے کے قابل ہوجائیں ۔ اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جب وہ اپنے والدین کے مکمل اور واضح الفاظ بھی نہیں سمجھ پاتا کیونکہ صنعتی اور مشینی ترقی نے انسان کو مشین بنا کر رشتوں اور تہذیب سے بے نیاز کر دیا ہے۔
ہر بچہ فطرت کے قانون کے مطابق پیدا ہوتا ہے اور زندگی گزارتا ہے ۔زندگی میں سب سے بڑی کمی والدین کا نہ ہونا ہے ۔جو بچے والدین کے بغیر پرورش پاتے ہیں وہ نسبتا شدت پسند ،جارحانہ اور بد لحاظ ہوتے ہیں ۔خاندان میں اور بغیر خاندان کے پلنے والے بچے میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ جتنا باغیچے کے پھلدار پودے اور جنگل کی خودرو جھاڑی میں ہوتا ہے ۔والدین بچے کی سماجی ،جذباتی،معاشی ،معاشرتی، ذہنی اور روحانی کانٹ چھانٹ کر کے اسے ایک بہترین انسان بناتے ہیں ۔ خاندان کی اصلاح اور والدین کی ڈانٹ ڈپٹ ہی وہ کانٹ چھانٹ ہے جو اس نوخیز فرد کو تناور شخصیت بنا دیتی ہے ۔ سماجی طور پر سب سے پہلی ضرورت اور اعتماد کی بنیاد شناخت ہے جو والدین اور خاندان سے ملتی ہے ۔ولدیت دنیا کا سب سے بڑا اعتماد ہے ۔ میں بذات خود اپنے والد پر فخر کرتی ہوں کہ میں ایک ایماندار اور کامل مومن کی بیٹی ہوں میری نظر میں اگر ایک خاندان درخت کی مانند ہے تو اس میں جڑ باپ ،تنا ماں ،اور پتے پھل پھول اولاد ہیں ۔باپ زندگی کی زرخیز مگر سخت زمینوں سے خوراک حاصل کرتا ہے ماں اسے اولاد تک منتقل کرتی ہے۔
Western Traditions
اگر انسان کی زندگی کی ابتدا سے والدین کا یہ تامل شامل حال نہ رہے تو یقینی طور پر حیاتیاتی عمل رک جائے ۔مشینوں کے اس دور کی شرمناک بات یہ ہے کہ ہماری نسل نو مغربی رسوم و رواج کی تقلید کرتے ہوئے مادر پدر آزاد ہو کر زندگی گزارنے کے طریقے کو پر اعتماد طریقہ سمجھتے ہیں ۔کیونکہ مغربی والدین کی اتفاقی اولاد اس تحقیق پر متفق ہے کہ خاندانی نظام میں رہنے سے بچے میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے اور جو بچے والدین کی فہم و خیال اور نصیحت سے بے نیاز ہوتے ہیں وہ پر اعتماد ہوتے ہیں الامان الحفیظ ۔مغربی عوام من مانی اور بد تمیزی کو آزادی تصور کرتے ہیں اسی لیئے بے راہروی کا شکار رہتے ہیں۔
والدین اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور والدین کا سایہ زندگی کی دھوپ اور دنیا کے شر سے محفوظ رکھتا ہے ۔مغرب کی اکثر چیزیں تو برانڈڈ ہوتی ہیں مگر اکثر افراد خاندانی ٹیگ یا شناخت کے بغیر ہوتے ہیں تو پھر ایسا معاشرہ خاندانی نظام سے متنفر ہو سکتا ہے ۔خاندانی نظام کی پروردہ بیٹیاں جو ہمہ وقت حیا کے زیور سے لدی ہوں انکے سروں پر باپ کا سایہ ہمراہماں کی راہنمائی اور بھائی کا حفاظتی حصار انکا وقار ظاہر کرتا ہے ناکہ اعتماد کی کمی ۔میں اپنی نسل نو کے ہر نوخیز مسلم سے یہ کہنا چاہوں گی کہ لاکھ ترغیب لئے آئے گی دنیا آگے دل میں گنجائش انکار سلامت رکھنا
مغربی تہذیب کی ہر نئی سماجی فکر اور تحقیق اس قدر ناخلف ہے کہ اسے ہمارے یہاں پہنچنا ہی نہیں چاہیئے یہ لوگ محض ٹیکنالوجی میں مکمل ترقی یافتہ ہیں اور الحمدوللہ ہم تہذیب یافتہ پس منظر رکھتے ہیں ۔میں امید کرتی ہوں ہماری نسل نو مغرب کے سماج کی پیروی کرتے ہوئے اس بات کو ہمیشہ دھیان میں رکھے ۔مغربی تہذیب کا نقشہ ایک شعر میں پیش نظر ہے حسین سانپ کے نقش و نگار خوب سہی نگاہ زہر پہ رکھ خوش نما بدن پہ نہ جا