تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور آج اپنے قارئین کو بہت ہی پیغام دینا چاہتا ہوں۔ مرشِد سرکار سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگامست بابا معراج دین صاحب کا فرمان ہے کہ ہمیشہ پھل دار یا خوشبودار پھولوں والے درخت اور پودے لگائیں تاکہ آکسیجن اور چھائوں کے ساتھ میٹھے پھل اور خوشبودار پھول بھی دستیاب رہیں۔ مولانا جلال الدین رومی کی حکایت ہے کہ ایک شخص نے بطور چیستان بیان کیا کہ ہندوستان میں ایک ایسا بڑا درخت پایاج اتا ہے جس کے سایہ کا پھیلائو کئی کوس تک ہے۔ اس کی جڑ یںپتال کی خبر لاتی ہیں اور ُاونچائی آسمان تک پہنچتی ہے۔ درخت کی عمر ہزاروں سال ہے۔ اس کا پھل تمام خلقت کھاتی ہے۔ اس کے پتوں کے متعلق لوگوں کا یقین ہے کہ وہ نہایت تلخ اور بدمزہ ہیں۔ جس شخص کو قسمت سے کوئی پتا مل جائے اوروہ بدمزہ ہونے کے باجود کھا جائے تو وہ قیامت تک نہیں مرتا۔ اس درخت کو ہند کے رشی درخت زندگی کہتے ہیں۔ اس کے نیچے مردان خدا سالہاسال اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب کوئی پتا جھڑے اور ان کے ہاتھ آئے۔ بادشاہ کے مصاحب نے یہ بات سنی تو وہ اس چیستان کو نہ سمجھا اور اس نے بادشاہ کے سامنے بہت نمک مرچیں لگا کر اس درخت کی تعریفیں شروع کر دیں۔ بادشاہ کے ایک وزیر سے یہ مصاحب کچھ ناراض تھا۔
اس لیے ساتھ ہی اس نے کہہ دیا کہ اس وزیر کے سوا اور کسی کا کام نہیں کہ اس درخت کا پتہ لگا کر اس کا پتا لائے جسے کھا کر بادشاہ حیاتِ جاوید حاصل کرے۔ بادشاہ نے اس وزیر کو بلا کر حکم دیاکہ تم ہندوستان جائو اور دو برس کے اندر اندر مجھے پتا لا دو۔ ”حکمِ حاکم مرگِ مفاجات” وزیر خزانہ لے کر جانبِ ہند روانہ ہو پڑا اور اس درخت کی تلاش میں ہندوستان کے تمام شہر، میدان، پہاڑ اور جنگل چھان ڈالے۔ جب اس کا خزانہ ختم ہو گیا تو وہ فقیر بن کر پیدل تلاش کرتا رہا پر اس کا پتہ نہ ملنا تھا نہ ملا۔جب وہ بالکل مایوس ہو گیا تو اس نے اللہ کی طرف رجوع کیا۔ اسے خواب میں الہام ہوا کہ ہمارا ایک دوست مرغاب میں ہے وہ تمہارا مقصد پورا کرے گا۔ خواب میں یہ مژدہ پا کر وہ مرغاب کی جانب چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ خلقت ایک طرف جوق درجوق چلی جا رہی ہے۔
یہ بھی اس طرف کو ہو لیا دیکھا کہ ایک بزرگ خندہ رو اور شیریں بیاں تشریف فرما ہیں اور لوگ ان کے گرد باادب بیٹھے ہیں۔ وزیر بھی نہایت عاجزی سے بیٹھ گیا اور اپنی داستان بیان کرنے لگا۔بزرگ نے سن کر جواب دیا کہ تم نے مدعا نہیں سمجھا۔ لفظوں کو لے لیا معانی پر غور نہ کیا وہ درختِ زندگی علم و ہنر ہے اور اس کا پتا اللہ کی معرفت۔ جس کو علم حاصل کر کے اللہ کی معرفت کا پتا مل جائے۔ وہ زندہ جاوید ہو جاتا ہے: رہتا ہے نامِ علم سے زندہ جہاں میں ذوق اولاد سے تو نام ہے دو پشت چار پشت (کتاب ”حکایاتِ رومی:مثنوی معنوی مولانا جلال الدین رومی) مولانا جلال الدین رومی صاحب کی حکایت کے اندرزندگی کاگہرہ فلسفہ سمجھاپاناتوشائد سب کے بس کی بات نہیں پرحکایت کے باہرکی دنیامیں پائے جانے والے درخت کی اہمیت وافادیت کوسمجھنابالکل آسان ہے۔بچپن کے زمانے میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ صاف و شفاف آب و ہوا کیلئے کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 23 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا لازم ہے۔ کچھ ماہرین ماحولیات کے مطابق ملک کے17فیصد حصے پرجنگلات ہوناضروری ہیں۔
عالمی موحولیاتی اداروں کی تحقیق کے مطابق کسی بھی ملک کے خشک رقبے کا 25فیصد جنگلات پہ مشتمل ہونا نہایت مناسب اورانسانی زندگی کیلئے انتہائی مفید تصور کیا جاتا ہے۔ افسوس اس بات کاہے کہ نہ تو حکومتی سطح پرشجر کاری کی اہمیت کے متعلق آگاہی فراہم کی جاتی ہے نہ بچوں کے نصاب کے اندر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں تعلیمی نصاب میں خاص معلومات دستیاب ہیں۔ایک سروے کے مطابق دنیا کے کل خشکی کے رقبے میں سے 31فیصد اس وقت جنگلات پر مشتمل ہے۔قدرتی بارش سے وجود میں آنے والے جنگلات کا 60فیصد حصہ برازیل میں ہے۔روس اور کینیڈا میں واقع تیگا جنگل اس وقت سب سے بڑا جنگل تصور کیا جاتا ہے جو پوری دنیا کے کل جنگلات کا 29فیصد بنتا ہے۔جب کہ وطن عزیز پاکستان میں ایک غیر ملکی ادارے کے مطابق 2005 تک پاکستان میں کل خشکی کے رقبے کا صرف 2.9فیصد جنگلات پر مشتمل تھا جبکہ عالمی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق 2011ء سے2015ء کے درمیان پاکستان کے کل خشکی کے رقبے کا صرف اور صرف 1.9فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے جو کسی بھی طرح سے کسی ترقی پذیر ملک سے بھی کم بنتا ہے۔
ہمارے یہاں عرصہ دراز سے شجرکاری کی مہم جاری ہے، بینر، اخبارات اورالیکٹرونکس میڈیاپرچلنے والے اشتہارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کی تمام تر تشہیر کے باوجود درخت بڑھنے کے بجائے مسلسل کم ہوتے جارہے ہیں۔ شجرکاری مہم سے ارباب اقتدار کو ذاتی و مالی فائدے کی چھاؤں ضرور حاصل ہوجاتی ہو گی ۔کاغذ کی فائیلوںپر لاکھوں پودے اُگادیئے جاتے ہیںجن میں سے چند ہزارخوش قسمت پودے ہی کاغذ کی دنیاسے نکل کرمٹی کی نسبت حاصل کرپاتے ہیں۔افسوس صد افسوس کہ وہ پودے بھی درخت بننے سے بہت پہلے بچپن میں ہی پانی نہ ملنے، مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور عوام کی عدم دلچسپی کے باعث مٹی میں مل جاتے ہیں۔
قارئین محترم تنقیدکرنابہت آسان ہے جبکہ عملی زندگی میں مقاصد کاحصول انتہائی مشکل ہے۔حکمرانوں پرتنقید کے ساتھ ساتھ ہمیں خود بھی درختوں کی اہمیت وافادیت سمجھنے کی ضرورت ہے۔درخت زندگی ہیں۔پاکستان کی کل آبادی تقریباً22کروڑ ہے،ہرپاکستانی اپنے حصے کاصرف ایک پودالگائے یافرض کریں کہ صرف 11کروڑپاکستانی ایک ایک پودالگائیں اورپھراسے توجہ بھی دیں توآئندہ سال تک پاکستان میں کم ازکم10کروڑدرختوں کااضافہ ہوسکتا۔مسلسل دس سال تک اس عمل کودہرانے سے ایک ارب درخت کااضافہ عوامی سطح پرممکن بنایاجاسکتاہے۔ایک ارب درخت ملک کرہمارے بچوں کیلئے مولانا جلال الدین رومی کی حکایت والے درخت جیسی اہمیت اختیارکرسکتے ہیں۔آئیں ہم سب اپنے حصے کاایک درخت لگائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کوصاف شفاف فضامیں سانس لینا،میٹھے پھل اورخوشبودارپھول میسررہیں۔قارئین محترم موسم بہار کی آمد آمد ہے آئیں ہم کوشش کر کے ایک سے زیادہ پودے لگائیں۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali4700@gmail.com 03134237099