درختوں کی کٹائی۔ ۔ماحول پر اثر انداز

Deforestation

Deforestation

تحریر: محمد اویس
آج دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے پریشان ہے انسان کا قدرتی ماحول میں مداخلت سے قدرت کا نظام بری طرح متاثرہ ہوا ہے پوری دنیا کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس تبدیلی کو روکنا انتہاہی ضروری ہے اگر اس کو روکا نہ گیا تو ایسے آفات آہیں گے جس سے دنیاکی بڑی آبادی متاثر ہوگی اوزون گیسوں کے اخراج اور درختوں کو کاٹنے سے دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیر تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں جس سے سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے اگر یہ اسی طرح بلند ہوتی رہی تو مستقبل میں بہت سے ممالک سمندر میں ڈوب جائے گئے اس موسمیاتی تبدیلی کو روکنے میں درخت بہت عام کردار ادا کرتے ہیں درخت موسم کو معتدل رکھتے ہیں ان کی جڑہیں زمین کو جکڑے رکھتی ہیں جوسے بارشوں کے دوران لائیڈسلاڈنگ سے روکتی ہے۔

اس کا مشاہدہ ہم نے کشمیر اور گلگت بلتستان میں کیا ہے کہ درخت کا ٹنے کی وجہ سے جب بھی بارش ہوتی ہے رابطہ سڑکیں بند ہو جاتی ہیں اور باراش کے ساتھ ہی ندی نالوں میں پانی کے ساتھ پتھروں اور مٹی کا ایک مکسچر تباہی مچاتا ہوا گزر جاتا ہے اس حوالے سے ایک فلاحی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن جو ہر قدرتی آفت میں سب سے پہلے پہنچی ہوتی ہے اسکے چیرمین حافظ عبدالرئوف کو میں نے کہتے ہوئے سنا کہ گلگت بلتستان میں درختوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ کاٹا گیا ہے جس سے پہاڑوں پر ایک درخت نہیں ہے تھوڑی سی بارش ہوجائے تو پہاڑوں سے مٹی کے بڑے بڑے تودے گرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

Plantation Campaign

Plantation Campaign

اس کے لیے ہمارا منصوبہ ہے کہ اس قسم کے قدرتی آفات کو روک نے کہ لیے شجر کاری مہم کا آغاز کیا جائے درخت بارش کے بعد ہونے والے نقصان سے مقامی لوگوں کو بچائے گا اس کے ساتھ درخت لگانا صدقہ جاریا ہے جب تک اللہ کی مخلوق اس سے فائد ہ اوٹھائے گی لگانے والے کو ثواب ملتارہے گا پنجاب میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے اگر ہم شہروں کی بات کریں تو شہروں میں درخت بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ اب مختلف ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کاٹے جارہے ہیں اگر پچھلے کچھ عرصہ میں درخٹ کاٹنے کے اعدادوشمار صرف لاہور شہرکا دیکھا جائے تو تقریبا دوہزاردوسو درخت کاٹ دیے گئے اور مزید ایک ہزار سات سو درخت اگلے کچھ عرصہ میں کاٹ دیے جائیںگے میڈیا میںآنے والی رپورٹوں میںکہاگیا ہے کہ پنجاب حکومت گزشتہ دو برس کے دوران مختلف ترقیاتی کاموں کی وجہ سے لگ بھگ 2200 درخت کاٹ چکی ہے جبکہ رواں سال شروع ہونے والے ایک اور میگا پروجیکٹ اورینج لائن ٹرین منصوبے کے لیے مزید 1700 درخت کاٹ دیئے جائیں گے۔

دستاویزات کے مطابق 3 پروجیکٹس، جن میں 2 ارب روپے کی مالیت کا سگنل فری کوریڈور منصوبہ (گلبرگ لبرٹی چوک سے شادمان براستہ جیل روڈ)، 160 ارب روپے مالیت کا لاہور اورینج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ اور ڈیڑھ ارب روپے مالیت کا کنال روڈ کو چوڑا کرنے کا پروجیکٹ شامل ہے، کی وجہ سے گزشتہ برس اگست کے مہینے کے بعد سے شہر پہلے ہی تقریبا 2200 درختوں سے محروم ہو چکا ہے۔سگنل فری کوریڈور کے پروجیکٹ میں لبرٹی چوک سے شادمان فوراہ چوک تک 196 درختوں کو کاٹا گیا، اورینج لائن میٹرو ٹرین منصوبے میں ڈیرا گجران سے علی ٹان کے درمیان 27.1 کلومیٹر کے درمیان آنے والے 620 درخت کاٹے گئے جبکہ کنال روڈ کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے دوران 1300 درختوں کو ختم کیا گیا۔یاد رہے کہ 2 برس قبل پنجاب یونیورسٹی سے لنک کنال روڈ تعمیر کرنے کے لیے بھی 120 درخت کاٹے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر آم کے درخت تھے۔رواں ماہ گلبرگ سے موٹروے تک ‘ایلیویٹڈ ایکسپریس وے پروجیکٹ’ کا آغاز کیا جارہا ہے، اسی منصوبے کے لیے مزید 1700 درخت کاٹنے کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس پروجیکٹ کا آغاز ‘بابو صابو’ سے ہوگا جبکہ یہ بولیوارڈ گلبرگ میں ظفر علی روڈ پر ختم ہوگا۔

یہ پروجیکٹ تین حصوں پر مشتمل ہے ، اس منصوبے میں سڑک کی طوالت 10.7 کلو میٹر جبکہ چوڑائی 31 میٹر ہوگی۔رپورٹ کے مطابق لاہور شہر میں شروع ہونے والے منصوبے میں مختلف اقسام کے درخت، سڑک اور نالہ آ رہے ہیں جبکہ پروجیکٹ کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے 1715 درختوں کی کٹائی کی جائے گی۔اب تک ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کاٹے گئے درختوں میں جامن، لیموں، شہتوت، شیشم، کیکر، ربڑ، امرود، نیم، پھولائی، کتھا، سدا بہار، یوکلپٹس اور سفید زیرے کے درخت شامل ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹر ماحولیات نسیم الرحمن نے درختون کی کٹائی کے بارے میںکہا کہ یہ شعبہ ایک بھی درخت کاٹنے کے خلاف ہے، مگر کچھ ناگزیر وجوہات ہمیں درختوں کو کاٹنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ان کا کہنا تھا ان ترقیاتی کاموں کی وجہ سے شہر کی آلودگی میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، تاہم امید ہے کہ اورینج ٹرین منصوبہ مکمل ہونے کے بعد حالات اور فضا میں بہتری نظر آئے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کشمیر ، گلگت بلتستان اور ہزاہ میں درختوں کو کاٹنے پر مکمل پابند ی لگا ئے اور اس کے لیے زیرو ٹارنس کی پالیسی اختیار کرئے جوکوئی بھی درختوں کو کاٹنے میں ملوث ہواس کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور اس کے ساتھ کشمیر گلگت بلتستان اور ہزارہ زون میں قومی درخت اور مقامی ماحول کے مطابق درخت لگانے کے لیے ایمرجنسی شجر کاری مہم کا آغاز کیا جائے تاکہ بارش جواللہ کی طرف سے رحمت ہوتی ہے ہمارے لیے زحمت نہ بنے ۔پنجاب میں درختوں کی دیکھ بھال کے لیے آزادانہ اتھارٹی قائم کی جا ہے۔

Effective Monitoring Trees

Effective Monitoring Trees

جس کے پاس سارے درختوں کے ریکارڈ موجود ہوں اس کے ساتھ سارے کاٹے گئے اور لگائے گئے درختوں کی جانچ پڑتال اور ان کا آڈٹ کیاجائے ۔ حکومت کی ذمہ دارہے کہ وہ ان درختوں کی موثر نگرانی کرئے جن کوکاٹے گئے درختوں کے بدلے کاشت کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی درختوں کی اہمیت سے سب واقف ہیں اور یہ وقت کی بھی اہم ضرورت ہے کہ درخت اگانے والے شعبہ جات اور حکام کاٹے گئے درختوں سے 5-10 گنا زیادہ درخت کی کاشت بھی کریں۔اس کے ساتھ پنجاب حکومت سے میری درخوست ہے کہ قومی مفاد کے مختلف منصوبوںمیں درختوں کو کاٹنے کی بجائے جدید ٹیکنالوجی سے استقفادہ کیا جائے آجکل جامن، لیموں، شہتوت، شیشم، کیکر، ربڑ، امرود، نیم، پھولائی، کتھا، سدا بہار، یوکلپٹس اور سفید زیرے جیسے درختوں کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے اس کے لیے درختوں کو ایک جگہ سے جڑوں سمیت نکال کردوسری جگہ لگانے والی گاڑی خرید لی جائے تو اس سے درختوں کو کاٹنے سے بچایا جاسکتا ہے اور قدرتی ماحول کو بھی۔

تحریر: محمد اویس
awaisjournalist1@gmail.com