آزمائش

Azmaish

Azmaish

تحریر : قاسم علی درویش

آزمائش یا امتحان دونوں کا ایک ہی مطلب ہے یعنی پرکھنا، جائزہ لینا، اہلیت یا قابلیت کو بھانپنا اور اُس کے بعد انعام واکرام سے نوازنا یا سزا دینا ہے، عموماً دونوں کا معنی ایک ہی ہے مگر ہم بات کو سہی طریقے سے سمجھنے کے لیے آزمائش اور امتحان کو الگ الگ کر کے دیکھتے ہیں، ایک عرشی نظام کہہ لیتے ہیں اور ایک فرشی نظام، اگر ہم فرشی نظام کی بات کریں تو ہر بندہ اپنی پیدائش سے لے کر موت تک کے سفر میں چاہتے نا چاہتے مختلف امتحانات سے گزرتا ہے، کچھ امتحان ایسے ہیں کہ جو ڈگری یا سند حاصل کرنے کی غرض سے دیے جاتے ہیں اور جب بندہ دیے گئے امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا مقام، رتبہ، عزت شہرت بڑھ جاتی ہے، اس کے ساتھ ایک امتحان وہ بھی ہے جو ہمارے اقربا، دوست احباب، والدین ، بذرگ، ہمارے حاکم یا ذمہ دار لوگ ہم سے لیتے ہیں جب ہم اُن کی پرکھ یا امتحان میں پورے اترتے ہیں تو ہمارا نام بلند ہو جاتا ہے، ہماری عزت بڑھ جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہم دوسرے امتحان کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جو کہ ہمیں معلوم ہو کہ نہ ہو مثلاً کوئی تمہاری مسلسل پرکھ کر رہا ہو، تمہاری جانچ پڑتال کررہا ہو اور تمہیں معلوم تک نہ ہو ،اگر آپ اس کی امیدوں پر پورے اترتے ہو تو آپ کے وقار اور قدرومنزلت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

ایک دوست اپنے دوست کی مختلف طور طریقوں پرجانچ یا پرکھ کرتا ہے اور جب اعتبارآجاتا ہے تو بالآخر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ دوست کی وفا پہ دل و دماغ میں ہلکی سی بھی بدگمانی نہیں آتی، ایسا اعتبار کہ دن تو دن وہ کہے رات تو بھی مان لیا جاتا ہے یعنی بہت بار یا ایک ہی بار دوست کو ایسے امتحان سے گزارا کہ اس پر آنکھیں بندکر کے پورا یقین آگیا ، تو ہمیں معلوم ہوا کہ فرشی نظام پر انسان، انسان کا امتحان لیتا ہی رہتا ہے اور اس کی عزت ، اس کے نام ، اس کے وقار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یا افسوس کہ ایک انسان دوسرے انسان کی نگاہوں سے گر جاتا ہے۔

اگر ہم عرشی نظام کی بات کریں تو اللہ خود بھی فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو تزکیہ نفس کے لیے پیدا کیا ہے یعنی آزمائش کے لیے، پھر اپنے حبیبﷺ کی زبانی بھی ہمیں بار بار بتلایا کہ اللہ انسان کو آزمائش دیتا ہے اور بڑی آزمائش رسولوں، نبیوں اور جو نبیوں کے جتنے قریب ہیں یعنی اصحاب کو آزمائش دیتا ہے اسی طرح آزمائش کا سلسلہ ہر انسان کے ساتھ رَبِ تعالی کی طرف سے چلتا رہتا ہے ، پھر فرمایا کہ یہ اللہ کے خاص بندوں پر آتی ہے جن کے مقام و منصب کو اللہ بڑھانا چاہتا ہے پہلے آزمائش دے کر ان کے ظرف کو دیکھا جاتا ہے اگر کامیاب تو پھر ان کے تعارف کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزمائش تو مصیبت ہے، تکلیف ہے پھر اللہ کیوں اپنے بندوں کو یہ تکلیف دیتا ہے، یعنی آزمائش دینے کا مقصد کیا ہوا، دوسرا آزمائش کے بدلے ہمیں کیا ملنے والا ہے تیسرا ہمیں کیسے معلوم ہو کہ ، آیا ہم پر ہمارے گناہوں کی سزا ہے یا اللہ کی طرف سے آزمائش ہے، اور کائنات میں سب سے زیادہ کس کو آزمائش دی گئی ہے۔

تو ، سنیں اللہ اپنے بندوں کو آزمائش سے اس لیے گزارتا ہے کہ تمہارا رُتبہ بُلند ہو جاۓ اور وہ تمہیں اپنے قریب کر لے یا آزمائش اس لیے بھی دی جاتی ہے کہ بھولا ہوا انسان واپس اپنی راہ پہ آجاۓالمختصر اللہ آزمائش کبھی دے کر، کبھی لے کر کرتا ہے یعنی جب لیا تو میرے بندے کا مزاج بدلا یا میرا بندا صبر، شکر کی کیفیت میں ہی رہا ، اور جب عطا کیا تو پھر اس میں تکبر آگیا یا وہ پہلے سے بھی زیادہ عاجز بن گیا، آزمائش کا بدلہ یا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہر آزمائش کے بعد اللہ بندے کو اپنے قریب کر لیتا ہے، بندے کو اپنا قرب عطا کرتا ہےاور آقاﷺ کی محبت عطا کر دیتا ہے۔

ہاں بعض اوقات ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہم آزمائش میں ہیں کہ اپنی بد اعمالیوں کی سزا میں، اگر میں کسی شخص کو بری حالت میں دیکھتا ہوں تو اپنی عقل سے اس بندے کے لیے کوئی راۓاختیار کر لوں گا آزمائش یا سزا کی مگر یہ ممکن ہے کہ غلط بھی ہو یعنی یہ ایک ایسی کیفیت ہے، ایسا راز ہے، ایسا باطنی نظام ہے کہ جس پر بیت رہی ہے وہی اپنا محاسبہ کر کے معلوم کر سکتا ہے کہ مصیبت ہے یا آزمائش، آزمائیش گو کہ جتنی بڑی اور مشکل ہو مگر انسان کو کہیں نا کہیں اندر سے سکون ملتا رہتا ہے اور ایسا انسان امید کی کیفیت میں ہی رہتا ہے اور جب یہ آزمائش ختم ہو جاتی ہے تو اس کے حالات اور دل کی کیفیت پہلے سے بھی زیادہ اچھی ہو جاتی ہے۔

ایسا انسان بہت کچھ سیکھ بھی جاتا ہے مگر جب یہی معاملہ گناہ کی شکل میں ہو یعنی سزا ہو تو انسان امید کے دائیرے سے باہر ہو جاتا ہے اور خوف کی کیفیت میں ہی ہر وقت رہتا ہے مگر فقیر کہتا ہے کہ آزمائش ایمان والوں کو آتی ہے، جس میں جس قدر ایمان ہوگا اسے اسی کے بقدر آزمائش ہوگی اور ایمان کا مہور یا مرکز تو جنابِ مصطفی جانِ رحمت ﷺ ہیں اور آپ ﷺ پر ہی کائنات میں سب سے بڑی آزمائش آئی ہے ،پھر بھی لبوں پر امت امت رہا افسوس آج ہم کہاں ہیں اور کدھر جارھے ہیں خیر حضرتِ علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایاکہ ہر تکلیف کے بعد اگر آپ رحمٰن کے قریب ہوۓ تو آزمائش اور اگر آپ شیطان کے قریب ہوۓ تو سزا، گویا ہمیں معلوم ہوگیا کہ آزمائش رَب کی طرف سے اپنے اُن بندوں پر آتی ہے جن سے اللہ محبت کرتا ہے اور جنہیں مزید اپنے قریب کرنا چاہتا ہے اب ایک راز کی بات بھی آپ کو بتاتا چلوں، ہمیں معلوم ہے کہ اللہ انسان کے گمان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے وہ سخی رَب ہے، شہنشاہ ہے اور رحمٰن بھی ہے اگر آپ رَب سے اچھا گمان رکھو گے تو آپ کے ساتھ اچھا ہی ہوگا، دعا یہ کریں کہ اللہ ہم سے بِنا آزمائش کے راضی رہے اور اگر ہمیں اپنی آزمائش میں ڈالتا بھی ہے تو اُس میں پورا اتارے آمین ٠
جزاک اللہ ۔
اللہ آپ کو سلامت رکھے۔

Qasim ali

Qasim ali

تحریر : قاسم علی درویش