جنوبی وزیرستان (اصل میڈیا ڈیسک) فاٹا کے انضمام کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن آج بھی قبائیلی اضلاع میں پاکستان کا قانون اور قبائیلی روایات پر مبنی نظام دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
جنوبی وزیرستان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایاز وزیر کا احمد زئی وزیر قبائل کے جرگے کی جانب سے پولیس چھاپوں کو روکنے کے نکتے پر اعتراض اٹھانا اور پھر جرگے کا ایاز وزیر کے گھر کو مسمار کرنے اور 10 لاکھ جرمانے کا حکم سوشل میڈیا کی زینت بنا تو چاروں طرف ایک طوفان مچ گیا۔ حا لانکہ قبائیلی علاقوں میں جرگے کے حکم پر گھروں کی مسماری کوئی نئی بات نہیں ۔ برسوں سے ایسا ہوتا آرہا ہے۔ علاقے میں قائم قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف جرگے کے فیصلوں کو حتمی حیثیت حاصل رہی ہے۔ حتی کے ماضی کی پولیٹیکل انتظامیہ بھی جرگو ں پر ہی انحصار کرتی تھی تاکہ علاقے کے رسم و رواج کے مطابق معاملات کو نبھاتے ہوئے قبائل یا پھر انفرادی سطح پر سامنے آنے والے تنازعات کا حل نکالا جا سکے ۔ جرگہ ایک قسم کی قبائیلی عمائدین پر مشتمل عدالت کا روپ ہوتا ہے ۔ قبائیلی علاقے جو کہ اب قبائیلی اضلاع کی حیثت اختیار کر چکے ہیں میں اب بھی جرگہ سسٹم کے زریعے تنازعات کو حل کیا جا رہا ہے ۔ انضمام اور عدالتوں کی ان علاقوں میں توسیع کے بعد بھی ایسا کیوں ہے یہ وہ بنیادی سوال ہے جسکا جواب مانگا ہم نے قبائلی عمائدین سے تو جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائیلی رہنما ملک شیر محمد وزیر نے کہا کہ چونکہ ہم انضمام کے عمل سے گزر رہے ہیں اس لیے بہت سی چیزوں کو بدلنے میں وقت لگے گا ۔ فی الحال قبائیلی اضلاع میں پاکستان کا قانون اور قبائیلی روایات پر مبنی نظام دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اس لیے ماضی کی پولیٹیکل انتظامیہ کی طرح اب سول انتظامیہ بھی چاہ رہی ہے کہ اس وقت تک جرگہ سسٹم کے زریعے ہی معاملات چلتے رہیں جب تک پولیس ،عدلیہ اور باقی محکمے ان علاقوں میں اپنا کام شروع نہیں کرتے ۔
ملک شیر محمد وزیر سے سوال کیا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق ان محکموں نے کام تو شروع کر رکھا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں کام تو کر رہے ہیں لیکن غیر موثر طریقے سے ۔ ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ غیر موثر طریقے سے کیسے ؟ تو ملک شیر محمد وزیر نے جواب دیا،” عدلیہ سمیت تمام محکمے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان سے کام کر رہے ہیں ۔ حتی کی ڈپٹی کمشنر اور سول جج بھی ٹانک میں بیٹھتا ہے ۔ ایک ایف آئی آر کو بھگتنے کے لیے ٹانک جانا پڑتا ہے ۔ قبائیلی علاقے سے دوسرے اضلاع تک سفر بھی ایک مشکل اور مہنگا عمل ہے ۔ پھر عدالتوں میں مقدمات کی طوالت بھی پریشان کن معاملہ ہے جسکے قبائل عادی نہیں ۔ اس لیے ان معاملات سے نمٹنے کا واحد حل جرگہ ہی ہے اور اب بھی یہی ہو رہا ہے۔‘‘ اگرچہ ملک شیر محمد وزیر نے اس بات کا اقرار کیا کہ گھروں کی مسماری ایک ظالمانہ فیصلہ ہے لیکن جرائم کی روک تھام اور سدباب کے لیے سخت سے سخت سزا کا چناؤ کیا جاتا تاکہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے ۔ایسے میں کئی گھر مسمار کیے گئے اور انضمام کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
لیکن جرگہ میں بات کرنا بھی اگر جرم بن جائے تو پھر انصاف پر مبنی فیصلہ کیسے ہو گا ۔ یہ وہ بنیادی سوال تھا جو وجہ بنی ایاز وزیر کے خلاف فیصلے کی ۔ اس پر جب ایاز وزیر سے رائے لی گئی تو انہوں نےکہا کہ ”جرگہ میں ضلع میں امن امان سے متعلق بات چلی تو میں نے تجویز دی کہ آپ حکومت سے پولیس اصلاحات کا مطالبہ کریں تاکہ پولیس مضبوط ہو اور اگر کوئی امن امان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کرے یا کوئی جرم کرے تو پولیس کے پاس اختیار ہو کہ وہ مشتبہ افراد کے گھروں پر چھاپے مارسکے اور مجرموں کو قانون کے دائرے میں لا سکے ۔ جرگے میں شامل کچھ لوگوں نے میری تجویز پر بات کرنے کی بجائے شور مچا دیا کہ میں نے بات کیوں کی کیونکہ جرگے کے مطابق مجھے بات نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ میں اسکا حق نہیں رکھتا تھا کیونکہ یہ بات پہلے طے ہو چکی تھی کی جرگہ میں کس کس نے بات کرنی ہے۔‘‘
تو انہوں نے کہا،” نہیں یہ صرف بہانہ تھا کیونکہ مجھ سے پہلے بھی 7 افراد بات کر چکے تھے میں آٹھواں شخص تھا لیکن کچھ عمائدین کو میری بات اچھی نہیں لگی اور انہوں نے بہانہ بنا دیا ۔ایاز وزیر کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ علاقے میں کئی افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے اکثر دن دیہاڑے کالے شیشیے والی گاڑیوں سے آنے والی گولیوں کا نشانہ بنے جنکا تدارک ضروری ے اور یہ تب ہی ممکن ہے کی اس علاقے میں حکومت کی رٹ بحال ہو اور پولیس مضبوط ہو لیکن بدقسمتی سے یہ بات بہت سے لو گوں کو پسند نہیں جسکا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا اور مجھے سزا سنا دی گئی ۔ جو گھر کی مسماری اور 10لاکھ روپے جرمانہ بتایا گیا۔‘‘
ایاز وزیر کے مطابق ساری گیم 100ارب روپے کی ہے ہر کوئی اس میں سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتا ہے ۔ امن وامان کی صورتحال کی شکایت قبائیلی رہنما ملک شیر محمد وزیر نے بھی کی ۔ اُن کے مطابق پرانے بچے کچھے کچھ عناصر اب بھی امن خراب کرنے کے درپے ہیں لیکن یہ کچھ پاکٹس تک محدود ہیں ۔ جب تک حکومت کی رٹ مکمل طور پر بحال نہیں ہوتی اور یہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور کالے شیشیوں کا معاملہ طے نہیں ہوتا تو مسئلہ ختم نہیں ہو گا ۔ انکا کہنا تھا کہ اس میں قصور وار سب ہیں ۔ بیورو کریسی ہو یا بھر فائدے اٹھانے والے دوسرے عناصر سب نہیں چاہتے کہ قبائیلی اضلاع کے مسائل حل ہوں اور یہاں بھی باقی پاکستان جیسا نظام ہو کیونکہ یہ شاید اُنکے مفاد میں نہیں ہے۔
جنوبی وزیرستان کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرفہید اللہ خان نے عمائدین کے خدشات کو رد کر تے ہوئے کہا کہ ادارے اور حکومت دونوں چاہتے ہیں کہ قبائیلی اضلاع کے انضمام کا عمل وعدے کے مطابق بہترین طریقے سے ہو اور ان علاقوں میں بھی وہی قانون ہو جو پورے پاکستان میں ہے ۔ اب یہاں کوئی اور متوازی نظام نہیں ہے ۔ انضمام سے قبل آفیشل اور پرائیویٹ جرگوں کا معاملہ تھا لیکن اب ایسی کوئی بات نہیں اب فیصلے عدالتوں میں ہی ہوں گے ۔ ڈی ڈیبلو نے سوال کیا کہ اب آفیشل جرگے نہیں ہوتے تو ایاز وزیر کے معاملے میں ہونے والے جرگے میں انتظامیہ کیا کر رہی تھی اور جرمانے کی رقم انتظامیہ نے کیوں ادا کی؟ تو فہید اللہ خان کا کہنا تھا کہ، ”انتظامیہ جرگے کا حصہ تھی نہ ہی سرپرست ۔ بلکہ معاملہ چونکہ بگاڑ کی طرف جا رہا تھا اور لاء اینڈ آرڈ کا خطرہ تھا اس لیے انتظامیہ نے مداخلت کی اور جرگے کو کسی بھی غیر قانونی کام کرنے سے روکا اور جہاں تک بات جرمانے کی رقم کی ہے تو وہ ویسے ہی ادا ہوئی جیسے کے طریقہ کار تھا اور وہ طریقہ کار کیا تھا اسکی وضا حت ضروری نہیں۔‘‘
پولیس کی استعداد اور فورسز سے متعلق سوال پر بھی وہ مطمئن دکھائی دیےلیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ دو چار خواتین کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں خواتین کی تعیناتی فی الحال نہیں ہو سکی ۔ اور یہی وہ نقطہ تھا جو وانا میں ہونے والے جرگے میں تلخ کلامی کا ایک جواز بنا کہ بغیر لیڈی پولیس کے گھروں پر چھاپے قبائیلی روایات اور چاد اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے کے متراد ف ہیں ۔
انتظامیہ کا موقف یقیننا اپنی جگہ اہم ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جن قبائیلی عمائدین سے بھی بات کی وہ انضمام کے عمل کی شفافیت پر اُنگلیاں اٹھاتے نظر آئے اُنکو لگتا ہے کہ جو جیسا ہے ویسا ہی رہے یہ خواہش قبائلی اضلاع کے عوام کے لیے مشکلات کے نئے دروازے کھول سکتی ہے کیونکہ قبائیلی عمائدین کا کہنا ہے کہ ”قبائلی اضلاع کے عوام کو آدھا تیتر آدھا بٹیر نہیں چاہیے۔‘‘