حامد میر کے لب و لحجہ میں اچانک اتنی گرمی کی بڑی وجہ اس کے پروگرام کی کم ہوتی ریٹنگ ہے جس کو اپ کرنے کے لئے یہ سرخ لکیر عبور کر گیا۔
تحقیق پر معلوم ہوا ہے کہ ریاستی اداروں کو للکارنے کا حالیہ منصوبہ 8 مئی 2021ء کو دورہ لاہور میں بنا۔
لاہور میں جہاں اس نے عطاالحق قاسمی کے ڈنر میں شرکت کی وہیں یہ ریاست مخالف سرگرمیوں سے متعلق مشہور حقوق خلق موومنٹ کے عمار جان اور فاروق طارق سے بھی ملا۔
سورس کے مطابق ملاقات میں اسے کہا گیا کہ لگتا ہے میر صاحب آپ بھی نواز شریف کی طرح خاموش ہو گئے ہیں جس پر اس کا کہنا تھا کہ موقع آنے دیں ایسا تیر چلاؤں گا کہ “بھائی لوگ” دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔
گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ حامد میر کافی روز سے اپنے اندر کا بغض باہر نکالنے کی تلاش میں تھا اور وہ اسے اسد طور کی شکل میں مل گیا۔
کچھ عرصہ قبل میڈیا کمیشن میں بیرونی آمدن کے حوالے سے ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس کے مطابق گزشتہ دس سال سے جنگ گروپ کو چند امریکی ادارے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے وائس آف امریکہ نامی نشریاتی ادارے کے ذریعے60 سے 90 لاکھ ڈالر سالانہ دیتے ہیں جس میں سے 25 فیصد رقم حامد میر کو ایک سال میں قسطوں میں ملتی رہتی ہے۔
جن بھارتی تنظیموں اور میڈیا اداروں کے ساتھ حامد میر کا اب تک قریبی تعلق ثابت ہو چکا ہے ان میں مانو وسادھنا، بلیک میجک موشن پکچرز، مام موویز، یووستا، ٹائمز آف انڈیا، ایکٹی میڈیا، پر سیٹ ٹیلنٹ، منیجمنٹ الائنس میڈیا، آئی والنٹیئر، الائنس میڈیا اینڈ اینٹرٹینمنٹ، کرما یوگا اور یوتھ پارلیمنٹ شامل ہیں۔
ممبئی اٹیک کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے لیے اجمل قصاب پہ حامد میر کا پروگرام ہو یا جنگ اور جیو کی آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر السلام کے خلاف چلنے والی مہم
چہرہ صرف حامد میر کا بے نقاب ہوا،جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف لگائے الزامات ثابت نہیں کر سکے تو جیو نے معافی مانگ لی ۔بعد ازاں حامد میر نے پی ٹی ایم سے لیکر ہر اس صحافی کی پشت پناہی کی جو اسائلم کے لیے خود پہ ریاستی جبر کا ڈرامہ کرنا چاہتا تھا۔
حامد میر کی اب تک کی صحافت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ موصوف رائیکولاایجنسیز کالوکل آپریٹر ہے اور اسکا ایجنڈا صرف اور صرف ریاستی اداروں کو بدنام کرنا ہے۔اسکے اس مشن کو ہائی لائٹ کرنے میں وائس آف امریکہ نامی نشریاتی ادارہ پیش پیش ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے لاطینی امریکہ میں پچھلے سال 19 رپورٹر مارے گئےکچھ نہیں ہوا،بھارت میں 40 صحافی مارے گئے،انسانی حقوق کے ادارے عالمی صحافتی ادارے خاموش رہےلیکن جیسے ہی حامد میر گروپ نے پٹیاں باندھ کے اسد طور کو آگے کیا امریکہ اور انسانی حقوق، عالمی صحافتی ادارے تڑپ اٹھے جس سے لگتا ہے دال پوری کی پوری کالی ہے
اگر حکومت وقت نے صحافیوں کے اثاثہ جات اور آمدن سے متعلق تحقیقات نہ کی اور اس کے لیے موثر قوانین ناں بنائے تو یقیناً یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں۔سوشل میڈیا سے متعلق بنائے گئے قوانین پر بھی جلد سے جلد عملدرآمد کی ضرورت ہے۔