“یا اللہ! مجھے موت دیدے”

Allah

Allah

تحریر: شاہ فیصل نعیم
یہ نوشہرہ ورکاں سے ملحقہ ایک گاؤں ہے گاؤں بھی ایسا کہ جہاں جی ٹی روڈ کا کوئی تصور نہیں، ہاں بڑی سڑک سے دو چھوٹی سڑکیں نکلتی ہیں جو گاؤں کو بڑی سڑک سے ملاتی ہیں ، بڑ ی سڑک سے گاؤں پہ ایک نگاہ ڈالی جائے تو کچھ کچھ گھروں پہ اینٹینےنظر آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بستی ابھی کیبل جیسی سہولت سے محروم ہے، جیسے جیسے رات کا اندھیرا بڑھتا ہے انسانوں اور گاڑیوں کا وجود معدوم ہونے لگتا ہے اور رات 7 بجے کے بعد تو گاڑی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی اور 8 بجے کے بعد انسان بھی گھر وں میں رہنا ہی بہتر خیال کرتے ہیں ۔ جو رات کو بڑی سڑک سے شہر کا رخ کرے گا وہ راستے میں بیٹھے چوروں اور ڈاکوؤں کی ضرورت کا سامان بنے گا اور بعید نہیں کہ وہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

گاؤں کو جانے والی دوسڑکوں میں سے ایک پہ تارکول بچھا ہوا ہے جس سے یہ قدرے بہتر دکھائی دیتی ہے ، سڑک شروع ہوتے ہی ایک گورنمنٹ سکول آتا ہے جہاں پر لڑکوں کو مڈل تک تعلیم دی جاتی ہے ، اُس کے دائیں جانب تین کمروں کا ایک گرلز سکول ہے جہاں پرائمری تک تعلیم دی جاتی ہےاور لڑکوں کے سکول کے ساتھ ہی سرکاری ہسپتال ہے کوئی نا بھی بتا ئے تو اس کی حالت یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ چار کمروں کی عمارت سرکار ہی کی مہربانی ہے، ہسپتال گیٹ کے تکلف سے آزاد ہے ، یہ عمارت دور سے جتنی گندی نظر آتی ہے قریب سے دیکھا جائے تو اُس سے کہیں زیادہ گندی ہے ، اس کے ساتھ ایک جوہڑ ہے، ہسپتال کی چاردیواری جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی ہے جس کے باعث گندہ پانی بلا روک ٹوک اندر آنا اور بیماریاں پھیلانا اپنا حق سمجھتا ہے ، ڈاکٹر صاحب صبح دو تین گھنٹے کے لیے ہسپتال تشریف لاتے ہیں اُس کے بعد ہسپتال میں نابندہ ہوتا ہے نا بندے کی ذات ، کوئی غریب مرتا ہے تو مرے کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ، ہاں جن کے پاس پیسے ہیں اُن کی سہولت کے لیے ڈاکٹر صاحب نے ذاتی کلینک کھول رکھا ہے جس کا پتا راہ چلتے کسی بھی گاؤں والے سے معلوم کیا جاسکتا ہے ، اسی سڑک پر تھوڑا سا آگے جائیں تو یہاں جاگیر داروں اور نمبرداروں کے بڑے بڑے گھر دکھائی دیتے ہیں۔

بڑی سڑک سے جو دوسری سڑک گاؤں کی طرف جاتی ہے اسے سڑک کہنا تو مناسب نہیں ہوگا ہاں اگر سڑک کا بچہ کہا جائے تو کوئی برائی نہیں جسے سڑک بننے میں ابھی برسوں لگیں گے وہ اس لیے کے بڑی سڑک سے لےکر گاؤں تک اس پہ صرف مٹی ہی مٹی پھیلائی گئی ہے اگر بارش ہوجائے تو گارے میں سے سڑک ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے ۔چند قدم آگے جا کر اس چھوٹی سے بے نام سڑک کے ساتھ ہی ایک بڑا سا جوہڑ ہے جس میں سارے گاؤں کا گندہ پانی جمع ہوتا ہے جس کا فیض ہسپتال کو بھی پہنچ رہا ہے ، اس سے آگے زیادہ تر گھر مٹی کے ہیں ان گھر وں کے درمیان میں بھی کبھی کچھ جگہ تھی جہاں گندہ پانی جمع ہوتا تھا مگر گاؤں کے چوہدری صاحب نے کچھ عرصہ پہلے گاؤں والوں پر مہربانی کرتے ہوئے یہاں مٹی ڈلوا کر اپنی حویلی بنا لی ہے ۔اسی حویلی کے سامنے ایک گھر ہے جس سے نکلتے تین دروازے بتاتے ہیں کہ یہ اب ایک نہیں رہا۔ پہلے دروازے سے کسی کے کراہنے کی آواز آرہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوں ۔۔۔۔ دروازے سے جھانکتا ہوں تو اندر ایک بوڑھی ماں کچھ برتن دھوتے ہوئے نظر آتی ہے ۔جیسے ہی اُس کی نظر مجھ پر پڑتی ہے تو وہ مجھ سے یوں مخاطب ہوتی ہے:
“آ جاؤ بیٹا ! اندر آ جاؤ ۔۔۔۔اپنا ہی گھر سمجھو۔۔۔۔”

“اماں ! یہ آواز کیسی ہے “؟
“لے بیٹا خود ہی پوچھ لے”۔

وہ مجھے بازو سے پکڑ کر اندر لے جاتی ہے ۔اندر اندھیرا ہی اندھیرا ہے ، چارپائی سے کچھ کپڑے اِدھر اُدھر ہوتے ہیں اور کسی ذی روح کے موجود ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔ “آ پتر بیٹھ میرے پاس میں تجھ بتاتا ہوں ۔۔۔۔۔کہ میں کیوں کراہتا ہوں؟ پتر میرے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ۔۔۔۔۔سب کی شادیاں ہو چکی ہیں ، بیٹیاں تو بیگانہ مال ہوتی ہیں اُن سے گلہ کیسا مگر ماں باپ کو بیٹوں پہ بڑا مان ہوتا ہے وہ امید کرتے ہیں کہ اُن کے بیٹے بڑھاپے میں اُن کے کام آئیں گے ۔ مگر بیٹا ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا، میرے دو بیٹے گاؤں چھوڑ کر شہر میں جا چکے ہیں جو عام دن تو دور کی بات کبھی عید والے دن بھی ملنے نہیں آتے اور اس مکان سے جو دو دروازے اور نکلتے ہیں ناں ؟ یہ بھی میرے ہی دو بیٹے ہیں۔۔۔۔مگر دیکھ لے قسمت کیا کھیل کھیلتی ہے۔۔۔۔۔۔ہمیں وہ دو وقت کی روٹی بھی نہیں پوچھتے وہ بھی تیری اس برتن دھوتی بوڑھی ماں کو خود ہی پکانا پڑتی ہے۔

Death

Death

پتر ! میں نے کسی کے ساتھ بُرا نہیں کیا اس کی گواہی پورا گاؤں دیتا ہے تو کسی سے بھی پوچھ لے ۔۔۔مگر میری اولاد سمجھتی ہے کہ میں نے اُن کو پیدا کرکے بُرا کیا ۔۔۔۔۔۔۔کوئی چار سال پہلے میں اپنی بیٹی کو ملنے شہر گیا تھا وہاں میری ٹانگ ٹوٹ گئی ۔۔۔۔۔جہاں تک جیب نے اجازت دی بہت کوشش کی کہ کہیں سے ٹھیک ہوجائے ۔۔۔۔مگر خدا کو شاید ایسا منظور نہیں تھا ۔۔۔۔۔اب پانچ سال ہونے کو ہیں میں چارپائی پہ پڑا ہوا ہوں ۔۔۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں کے خود اُٹھ کر پیشاپ کر سکوں ۔۔۔۔یہ تیری ماں ہی ہے جو مجھے سنبھالتی ہے ۔ اگر کبھی بیٹوں کو آواز دوں تو وہ کہتے ہیں: “اسے کھانے کو کم دیا کر ۔۔۔۔۔۔ابا کم کھائے گا تو ۔۔۔۔کم پیشاپ کروانے کے لیے کہے گا”۔ پتر ! مصیبت تو خدا کی طر ف سے ہوتی ہے کوئی خود تو نہیں چاہتا کہ اُس کے ساتھ بُرا ہو۔ میں اب اتنا مجبور ہو چکا ہوں کہ ہرروز دعا کرتا ہوں کے خدا مجھے موت دیدے ،مجھے پر نہیں تو اس بوڑھی عورت پر ہی رحم کھائے جو اپنے بڑھاپے کے ساتھ مجھے سنبھالتے سنبھالتے تھک چکی ہے۔

میں تو تیری ماں کو کہتا ہوں کہ مجھے کتوں کے آگے پھینک دے ۔۔۔میں اب اور نہیں جینا چاہتا ۔۔” وہ مجھے سے کہہ رہا تھا : “پتر ! تم میرے لیے خدا سے دعامانگنا کہ وہ مجھے موت دیدے۔۔۔۔۔۔خدا مجھے موت دیدے”۔ میں نے کہیں پڑا تھا کہ خدا نے زندگی دی یہ اُس کی نعمت ۔۔۔۔۔۔اور جب وہ موت دے گا تو وہ بھی اُس کی نعمت ہوگی ۔۔۔۔۔لوگوں ذرا سوچو اگر خدا موت نا دے تو تم پر کیا بیتے؟
موت ایک نعمت ہے یہ حقیقت اپنی جگہ بجا مگر اولاد جو والدین کے ساتھ ایسا سلوک کرے ۔۔۔خدا اُسے ہدایت دے۔۔۔! میں سوچتا تھا کہ اولاد اپنے والدین کے ساتھ کیونکر ایسا کر سکتی ہے ماں باپ کوئی ہزاروں تو نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔ والدین زندگی میں ایک ہی بار نصیب ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ مجھے بابا جی کی باتوں میں کسی حد تک سچائی نظر آتی تھی وہ اس لیے اب ہم نے اُن قدروں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے جو کبھی ہماری پہچان ہوا کرتی تھیں۔۔۔۔مگر جس سچائی کا میں عینی شاہد تھا اُس کے سامنے بابا جی کی سچائی بہت چھوٹی سچائی تھی۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم