نظام قدرت ہے جب کوئی چیز عروج کو چھو لیتی ہے واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے ،کہتے ہیں چھوٹی چھوٹی بیماریوں پر چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر دل برا نہیں کرنا چاہیے نہ اللہ سے شکوہ کرنا چاہیے یہ آپ کو کسی بڑی مصیبت سے بچانے کا سبب بن جاتی ہیں ایک کہانی میں نے کہیں پڑھی تھی ایک آدمی کو جانوروں کی بولیاں سمجھنے کا ہنر آتا ہے ایک دن وہ بیٹھا کھانا کھا رہا ہوتا ہے جب اس کا مرغا اور کتا آپس میں لڑنے لگتے ہیں مرغا کہتا ہے لڑتے کیوں ہو کل مالک کی بھینس بیمار ہوگی مالک اسے حلال کرے گا تمہیں بھی کھانے کو بہت سا گوشت مل جائے گا مالک جب یہ سنتا ہے فورا اٹھتا ہے اور بھینس کھول کر بیچ آتا ہے۔
دوسرے دن پھر کھانے کیوقت مرغے اور کتے کی تکرار ہوتی ہے اب مرغا کہتا ہے کوئی بات نہیں اب مالک کا گھوڑا بیمار ہوگا جو اسے بہت پیارا ہے مالک کے دوست پوچھنے آئیں گے بہت سا کھانا بنانا پڑے گا جو بچ جائے گا تم کھا لینا کنجوس مالک جب سنتا ہے تو وہ جا کر گھوڑا بھی بیچ آتا ہے اب کتے کو بہت غصہ آتا ہے وہ مرغے سے لڑتا ہے تو مرغا کہتا ہے اب میری بات جھوٹی نہیں نکلے گی اب مالک کا بیٹا بیمار ہو کر مر جائے گا قل ہونگے چاول بنیں گے گوشت والے تم کھا لینا اب تو مالک گھبرا جاتا ہے کف افسوس ملتا ہے کاش میں بھینس یا گھوڑا ہی قربان ہونے دیتا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ہونی ہو کر رہی۔
سچ پوچھیں تو ہم بھی اپنے عروج کو چھو چکے تھے ،کرپشن ،ظلم ،حسد ،منافع خوری ،زخیرہ اندوزی ،عیش و عشرت کے لاتعداد سامان ،بے حیائی عروج پر ،قتل و غارت گری عروج پر سب سے بڑا ظلم زینب جیسی معصوم بچیوں سے زیادتی اور اس کے بعد بہیمانہ ظلم اور تشدد کے بعد قتل کیا کیا نہیں ہوا اس ملک میں شراب پیتی عورتیں ماری جاتیں ارکان اسمبلی کے عشرت کدوں میں ،مگر کسی کو لب کشائی کی اجازت نہیں تھی عدالتوں سے انصاف اٹھ گیا مجرم وکٹری کا نشان بناتے باہر آنے لگے تو مایوسی دو چند ہو گئی ہم نے سمجھ لیا بس اب یہی ہمارا مقدر ہے اور ہمیں اسی ظلم کے ساتھ زندگی گذارنی ہے اب آپ لوگ سوچیں گے کہ چلو ہم تو گناہ گار تھے بڑے بڑے ترقی یافتہ ملک اسکی زد میں کیوں آئے تو میں آپ کو بتاتی ہوں ظالموں کو انہی ملکوں کا ہی تو آسرا تھا جب حکومت چھنتی انہی ملکوں میں جا کر بیٹھ جاتے اور کچھ عرصہ بعد نویں نکور ہو کر واپس آ جاتے اب انہی ملکوں سے بھاگ کر واپس آئیں گے یہ میری بات یاد رکھنا۔
ہم واپس لوٹ رہے ہیں ہماری ڈور کٹ چکی ہے کہاں گئی ترقیاں اور ششکے؟ جب انسان باقی نہ رہے تو یہ سامان تعیش ،بنگلے موٹر گاڑیاں اونچے پلازے سامان سے بھرے مالز یہ کس کام کے؟ حد تو یہ ہے کہ ابھی بھی ڈرامے اور سیاست کھیلی جا رہی ہے ایک تیس پینتیس سال حکومت کرنے والا تجربہ کا رحکمران خاندان جو اپنے دور میں ڈینگی کا عذاب بھگت چکا تھا بلکہ کے پی کے میں ڈینگی کے لاروے کولروں میں بھر کے بجھوا چکا تھا اس نے کیا کیا زلزلہ ذدگان کے فنڈ کھا گیا 2011میں ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے پنجاب میں 12ہزار سے زائد مریض موجود تھے لاہور میں ایک دن میں 400مریض جاںبحق ہوئے سرکاری ہسپتال کم پڑ گئے تو شہباز شریف نے نجی ہسپتالوں سے مریضوں کو ٹریٹ منٹ دینے کی درخواست کی لیکن جب یہ بحران ٹلا تو جانتے ہیں شہباز شریف نے کیا کیا ؟۔
اس نے لاہور میں میٹرو بس کی تعمیر کے منصوبے کی بنیاد رکھ دی حنیف عباسی جیسے بندے کو جومانا ہوا منشیات فروش تھا اربوں کا منصوبہ اسے تھما دیا گیا لیہ ،بھکر،ملتان وزیر آباد اور دیگر شہروں کے ہسپتالوں کی تعمیری منصوبوں کا تمام پیسہ اٹھا کر لاہور میٹرو پر لگا دیا گیا صرف الیکشن جیتنے کے لیے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قوم کی نفسیات سیٹ کرنے میں نواز شریف کا بڑا کردار ہے اور اس قوم کی نفسیات پہچاننے میں ملک ریاض ماہر ہے اس نے سب کو اس کی مرضی کا سکھ بانٹا اور نواز شریف نے اس قوم کو اپنی سیاسی ڈگڈگی پر نچایا دو نسلیں اس کھیل میں برباد ہو گئیں ایک وہ جو نواز شریف سے تھوڑی کم عمر ہے اور ایک وہ جس کے پاس سوچنے کے لیے دماغ ہی نہیں ،نسلوں کی آبیاری میں ٹیکنالوجی بہت اہم ہوتی ہے یہ نسل تو ویسے ہی مکمل میڈیا کے رحم و کرم پر پلی ہے اس لیے ان میں ذہنی مسائل زیادہ ہیں وہ نہ تو ماں باپ کی مانتے ہیں نہ اسلام کی نہ ہی حکومت کی سنتے ہیں ویسے بھی علما اب ان کے نزدیک صرف ولن ہیں جس طرح علماء نے اپنا امیج بنا لیا ہے روشن خیالی کو پروموٹ کرتے کرتے وہ اپنے مقام سے ہٹ گئے ہیں اپنی آسائشوں کو ترجیع دی اور ہر طرف سے کان لپیٹ لیے۔
والدین ویسے ہی اولاد کے آگے سرنڈر کر چکے ہیں وہ کہتے ہیں ابا جی اپنا زمانہ بھول جائو لوگ اس پوسٹ سے اربوں کماتے ہیں آپ نے غریب رہنا ہے تو رہیں ہم نے غریب نہیں مرنا اور والدین تھر تھر کانپنا شروع ہو جاتے ہیں حضور صلی علیہ وسلم نے فرمایا تھا ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لونڈی آقا کو جنے گی ماں کا مقام ختم ہو جائے گا آجکل کی اولاد سے والدین ڈرتے ہیں کچھ گھروں میں ابھی بزرگوں کا احترام باقی ہے مگر آٹے میں نمک کے برابر ،پانی سر سے گذر چکا ہے میرا جسم میری مرضی ایک پلانٹڈ منصوبہ ہے جس میں رشتوں کی آخری ڈور بھی ٹوٹ جائے گی اس کو شغل میلہ نہ سمجھیں میں اس پر مکمل تفصیل سے اگلے کالم میں لکھونگی فی لحال مجھے اس موجودہ صورتحال یعنی کرونا وایرس پر بات کرنی دیکھیں ان وبائوں ،ان عذابوں کی پیش گوئی صدیوں پہلے ہمارے پیغمبر کر چکے ہیں اب بحث اس پر نہیں کہ کس کی کوتاہی ہے نہ سیاست چمکانے کا وقت ہے۔
یہ آفت پوری دنیا پر آئی ہے یہ الارم ہے کہ ہم سنبھل جائیں لیکن ہم ابھی بھی ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں رہی بات آسانیاں فراہم کرنے کی تو موجودہ حکومت اپنے وسائل سے بڑھ کر کام کر رہی ہے اس نے انا کا مسلہ نہیں بنایا جو جتنا میسر ہے عوام سے شیئر کیا ہے یہ وہ حکمران نہیں جو اپنی جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر ٹرانسفر کر دے گا وہ حالات سے مسلسل لڑ رہا ہے اپوزیشن ہر وقت اس کو سیخ میں پروئے رکھتی ہے لیکن اس نے ہارنا نہیں سیکھا ضیا شاہد صاحب نے بہت اچھی بات کی ہے کہ عمران خان چونکہ کھلاڑی رہ چکا ہے اس لیے وہ ہمیشہ جیت کی امید رکھتا ہے واقعی اگر کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو اب تک تماشہ چھوڑ کے جا چکا ہوتا اللہ عمران خان کو ہمت دے اب لاک ڈائون کی آپشن آ چکی ہے جس سے حکومت محض اس لیے بچ رہی تھی کہ غریب دیہاڑی دار بھوکا نہ مر جائے لیکن لاڈائون کا فیصلہ ہو چکا ہے تو اس سلسلے میں انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں جن میں اشیائے خوردونوش کی فراہمی اور تین ہزار روپے مہینہ دیہاڑی دار کو دیا جائے گا فوج اور پولیس اس سلسلے میں الرٹ ہے لوگوں کا عمومی رویہ بچگانہ بلکہ جاہلانہ ہے میری ایک عزیزہ جو کینڈا میں رہتی ہیں ان کو بڑی حیرت تھی کہ پاکستانی قوم کس طرح کی فرمائشیں اپنی حکومت سے کر رہی ہے ہم تو کئی دنوں سے لاک ڈائون ہیں صرف گروسری کی اجازت ہے نو میڈیسن نو ہیلپ لائن حالانکہ یہ ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کے بھی اتنے وسائل نہیں کہ ہر جی کی ناز برداریاں کر سکیں بلکہ سختی سے نمٹا جا رہا ہے اس طرح کی بات وقار ملک نے بھی کی کہ ہم نے خود ہی اپنے آپ کو بند کر لیا ہے۔
ہمیں ہدایات دی گئی ہیں کہ آپ کو کوئی بھی بیماری ہو آپ نے ہمیں فون نہیں کرنا اپنے آپ کو آئسولیشن میں رکھیں اپنا علاج خود کریں حتی کہ کسی کو ہارٹ اٹیک تک نوبت آ جائے تب بھی ہاسپٹل جانے کی اجازت نہیں اور ایک ہماری عوام ہے جس کے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے ہر بات کا زمہ دار عمران خان کو ٹھیرا کر آپ نے کیا ثابت کرنا ہے اب کہتے ہیں چین سے طلبا منگوائے نہیں ایران سے زائرین کو کیو آنے دیا ؟ طلبا کا ویزہ تین سال کا ہوتا ہے جبکہ زائرین اٹھائیس دن سے اوپر نہیں ٹھیر سکتے انہوں نے وہاں سے آنا ہی تھا۔
ایران خود پابندیوں کا شکار ہے وہ کب تک رکھتا جبکہ ہمارے لوگ خود بھی بھاگ پڑے اسی طرح سعودیہ سے عمرہ کرنے والوں جب نکالا گیا وہ بھی اپنے ساتھ لے کر آئے بلکہ شہباز شریف صاحب لندن سے آئے تو آتے ہی پریس کانفرنس کر ڈالی فوٹو سیشن کروایا کیا یہ عقلمندی کا کام تھا ؟پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر تعلیم وائرس کا شکار ہو چکے ہیں لیکن وہ میٹنگیں کرتے رہے چیئرمین بلاول سے اور اپنی کابینہ ارکان سے ۔۔۔اس کا رزلت کیا آتا ہے یہ تو اللہ ہی جانے بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن احتیاط تو نبیوں اور خلفاء راشدین نے بھی کی تھی اور ایک حضور کی طرف سے واضح احکام تھے جہاں وبا پھیلے اس جگہ کو چھوڑ کر نہ جائو اور جہاں وبا ہو اس کے قریب نہ جائو حضرت عمر فاروق کے عہد میں طاعون کی وبا پھیلی تو موجودہ دور کی طرح قرنطینہ کا اصول اپنایا گیا اور اس پر سختی سے عمل کیا گیا کہ وبا شام اور عراق سے باہر نہ نکل سکی اس اثنا میں حضرت عمر شام کی جانب روانہ ہو چکے تھے کہ مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق اپنے ھاتھوں درست سے فرمائیں۔
تبوک کے قریب پہنچے تو تو وبا کی اطلاع ملی اسی اصول کے تحت آگے جانے کی بجائے واپس لوٹ آئے پچیس ہزار مسلمان طاعون کی نذر ہوئے جس میں حضرت ابو عبیدہ جیسے جلیل القدر صحابہ بھی تھے کیا ان حضرات سے زیادہ سچا اور ایمان والا کوئی تھا ؟ اور کیا ان کی ایمانی طاقت کم تھی ؟ لیکن طاعون نے انہیں بھی شہید کر دیا ،ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربار رسالت میں حاضر ہوا رسول وسلم نے اسے اسی مقام سے واپس لوٹا دیا اس کا سامنا تک نہیں کیا نہ بعیت لی نہ مصافحہ کیا نہ سامنا کیا (صحیح مسلم
2231) جو لوگ کہتے ہیں ہمرا ایمان ہے ہمیں احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں غلط کہتے ہیں وبا سے احتیاط سنت ہے بے شک اللہ پر توکل کرو موت کا خوف نہ کرو کیونکہ وہ جب آئے گی کوئی بچا نہ سکے گا لیکن احتیاط لازم ہے بے احتیاطی کر کے اس کا ملبہ حکومت پر مت ڈالو دنیا کی کوئی طاقت اتنے وسائل رکھنے کے باوجود کروڑوں لوگوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی آپ مرغیاں نہیں ہو جن کو دڑبوں میں بند کر کے خوراک ڈالنی شروع کر دیں ،اپنی حفاظت کو یقینی بنائو !