وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں گھریلو مشقت کرتے اور تشدد سہتے بچوں کے حوالہ سے حقائق پر مبنی اطلاعات کا تمام تر سہرا الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے سر جاتا ہے ،بچوں سے گھریلو مشقت اورتشدد کے یہ واقعات کوئی نئی بات نہ ہیں ،معاشی مجبوریوں اور معاشرتی بے حسی کی وجہ سے اکثر والدین اپنے چھوٹے بچوں کو شہروں یا گائوں کے کھاتے پیتے گھرانوں میں ملازم رکھواتے ہیں معاشرتی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے ان ملازم بچوں کے ساتھ یہ کھاتے پیتے گھرانوں کے رئیس زادے اور رئیس زادیاں انتہائی ہتک آمیز سلوک روا رکھتے ہیں ان گھرانوں میں اکثر ملازم بچوں کو اپنے ہم عمر وں کی دیکھ بھا ل کے لیے رکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ رویہ انتہائی توہین آمیز رکھنے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات انکو شدید جسمانی سزائیں بھی دی جاتی ہیں ان ملازم بچوں کی خوراک ،رہائش ،صحت کا خیال امراء کی تقاریر یا بحث مباحثوں میں ضرور ملتا ہے جبکہ ان کے گھروں میں زمینی حقائق کچھ اور منظر پیش کرتے ہیں ایک تحقیق کے مطابق انسان کو جب کسی پر اختیار حاصل ہوجائے تو وہ پر تشدد رویہ اپنانے لگتا ہے کہا جاتا ہے کہ انسانی دماغ انتہائی پچیدہ ہے جہاں یہ پیار ،محبت ،اخلاق اور نئی نئی ایجادات کی تخلیقی خاصیتیں رکھتا ہے وہیں نفرت ،تشدد،ظلم کے نئے نئے طریقے اختیار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
جب کسی انسان کو کسی پرمکمل اختیار حاصل ہو جاتا ہے تو وہاں تشدد اور ظلم کی کہانیاں جنم لیتی ہیں ،سانچ کے قارئین کرام !گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کی سب سے بڑی وجہ یہ ہی ہے کہ ان بچوں کے والدین معاشی مجبوریوں کے تحت اپنے معصوم بچوں کو کھاتے پیتے امراء کے ہاں چھوڑ آتے ہیں جہاں یہ بچے دن رات اُنکی تحویل میں رہتے ہیں اکثروالدین نے اپنے ملازم پیشہ بچوں کی تنخواہیں ایڈوانس میں وصول کی ہوتی ہیں جس کی بنا پر یہ بچے وہاں رہنے پرمجبور ہوتے ہیں اسی مجبوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے امراء ان پر ظلم اور تشدد کرتے پائے جاتے ہیں یہاں یہ امر انتہائی قابل ذکر ہے کہ آج کل ایسے بچوں پر تشدد کرنے والے مالکان میں مڈل کلاس اور نودولتیے زیادہ ہیں اِن گھرانوں کی خواتین مختلف اداروں میں ملازمت کرتی ہیں جس کی بنا پر وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور کھیل کود کے لیئے اُنکے ہم عمر بچوں خاص طور پر بچیوں کو گھر میں ملازم رکھ لیتے ہیں گھریلوملازم بچوں کی اوسط عمر6سے 10سال تک ہوتی ہے دیکھنے میں آیا ہے کہ گھریلو ملازمین خاص طور پر ملازم بچیوں کے ساتھ رویہ سب کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
چاہے وہ تاجر ،پولیس ،ڈاکٹر ،جج،وکیل ہوں یا سکولوں کالجوں ،مدرسوں میں اخلاقی اقدا رکو اپنانے کی باتیں کرنے والے ہوں جب انھیں اپنے ملازم بچوں پر مکمل اختیار حاصل ہو جاتا ہے تو تشدد یا مار پیٹ کو معمولی بات سمجھتے ہیں سانچ کے قارئین کرام !بخوبی جانتے ہونگے کہ گزشتہ چند سالوں میں گھریلو ملازم بچوں پر شدید تشدد کے واقعات کی صورت میں اموات بھی ہوئیں میڈیا پر ایسی خبریں آنے کے بعد چند گرفتاریاں اور مقدمے بنے لیکن کوئی ایسی سزا مالکان کو نہ دی گئی جس سے گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کو روکا جا سکتا گھروںمیںملازم بچوں سے لی جانے والی مشقت حقیقت میں جبری مشقت کے زمرے میں ہی آتی ہے چائلڈ لیبر قوانین کا مکمل اطلاق نہ ہونے سے بچوں کو گھروں میںملازم رکھنے کی حوصلہ شکنی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے قانون کی گرفت سے ایسے لوگوں بچ نکلتے ہیں وطن عزیزپاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر وجود میں آئی اسلام میں بچوں کے حقوق کا ذکر سب سے زیادہ کیا گیا ہے لیکن افسوس ہم اپنے بچوںکے حقوق کا ذکر تو برملا کرتے ہیں لیکن ایک مجبور ،غریب کے بچوں کو حقوق کی بات اور اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ، پیارے نبی حضرت محمد ۖ نے والدین کو بچوں کی پرورش کا براہِ راست ذمہ دار ٹھرایا ہے جس میں کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہونگے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (آگاہ ہو جاؤ! تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں (روزِ قیامت) پوچھا جائے گا ،یادرکھو لوگوں کا امیر بھی رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، اور ہر فرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اور ہر عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس بارے میں سوال ہوگا، آگاہ رہو، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری و مسلم) )سانچ کے قارئین کرام !اسلام میں بچوں کی تعلیم وتربیت کا حکم جتناوالدین کو ہے اُتنا ہی حکمرانوں کو ریاست میں تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے حوالہ سے ہے،حکمران کو ریاست میں بچوں کے حقوق کے حوالہ سے قوانین کے بنانے اور اُنھیں بلا تفریق وتمیز بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنے سے ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق ہر چوتھے گھر میں ملازم بچے خاص طور پر بچی کے ساتھ تشدد اور ہتک آمیز رویہ رکھا جاتا ہے ہمارے ہاں چائلڈ لیبر کے قوانین اور اُن پر عمل درآمدکروانے والے ادارے بھی موجود ہیں لیکن افسوس بات میٹنگوں سے آگے نہیں بڑھتی زمینی حقائق کے مطابق گھروں ،ہوٹلوں ،موٹر مکینک کی دوکانوں میں بچے مشقت کرتے نظر آتے ہیں ، بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق تقریباََ ایک کروڑ سے زائد بچے پاکستان میں کم عمری میں محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں یہ بچے معاشی حالات کے علاوہ سکولوں میں اساتذہ کے سخت رویے یا پڑھائی میں بہتر نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے ہٹا کر محنت مزدوری پر لگا دیے جاتے ہیں اگر ہم وطن عزیز پاکستان میں گھروں میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد کو بھی شامل کر لیں تو محنت مزدوری کے لیے اپنا بچپن دوسروں کو سونپنے والوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر جاتی ہے وطن عزیز پاکستان میں گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے واقعات میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین صرف کتابوں،تقاریر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اس سے متعلقہ ادارے میٹنگوں اور کاغذی کاروائیوں سے آگے کچھ نہیں دیکھ پا رہے۔