استاد کلاس میں داخل ہوئے اور درس دینا شروع کیا ،جب وہ لیکچر سے فارغ ہواتو ایک طالب علم سے سوال پوچھا تو اس کو طالب علم کے سوال سے اندازہ ہواکہ وہ سوال کرنے والا طالب علم کلاس میں حاضر و متوجہ نہیں تھا۔جس کے بعد استاد نے اس کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ الامان والحفیظ۔طالب علم کی اس غلطی پر استاد نے مستقل عادت سمجھتے ہوئے ہمیشہ کلاس میں اس کو زیر عتاب رکھتے ہوئے تشددکا نشانہ بناتارہا۔ یہاں تک کہ اس طالب علم کے والد نے استاد کے رویے سے تنگ آکر اپنے بیٹے کو دوسرے استاد کے درس میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔اور اس نے مہتمم مدرسہ سے درخواست کی کہ میرے بیٹے کو کسی دوسرے استاد کی کلاس میں بھیج دیں۔
اس واقعہ نے مجھے یاددلایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ اگر آپ ۖ نرم دل اور خوش اخلاق ہونے کی بجائے سخت گیر ہوتے تو صحابہ آپۖ کے گرد جمع نہ ہوتے۔آپۖ کی نرم مزاجی و اچھے انداز گفتگو کی وجہ سے لوگ آپۖ کے قریب جمع بھی ہوتے تھے اور آپۖ کی گفتگو بھی سنتے تھے۔اسی سبب رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں۔معاشرے میں بہت سے علماء ایسے ہیںجو مسند رسول پر بیٹھ کر تند و تیز جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں اور بلند آواز سے گفتگو کرتے ہوئے لوگوں کو شدید تر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔لوگوں کی معمولی غلطیوں پر سخت انداز میں گفتگو کرنے کے ساتھ طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔معاشرے میں ایک دوسرا گروہ ایسا بھی ہے وہ جنت اور بہت زیادہ ثواب کی نوید سناتے ہیں تو ایسے میں معاشرے میں افراط و تفریط پیدا ہوجاتاہے کہ یا تو وہ دنیا سے روگردانی اختیار کرلیتا ہے یا پھر وہ آخرت کے امتحانات کو معمولی سمجھنے لگتاہے کہ اس پر تشدد و الزامات کی دنیا میں ہی اس قدر بھرمار ہوچکی ہوتی ہے تو وہ اخروی مراحل کو غیر معمولی سمجھتاہے۔
دین تو بہت آسان ہے۔داعیوں پر لازم ہے کہ وہ عوام کے ساتھ حکمت و دانشمندی اور نرم انداز سے وعظ و نصیحت کریں۔مجھے ایک عالم نے بتایا کہ میرے دوست نے مجھے بتایا کہ اس کا بیٹامرحلہ ثانویہ کا طالب علم ہے ،بچوں کے ساتھ مل کر چوری شروع کردی تو استاد نے بچے کے باپ کے پاس شکایت بھجوائی اور وہ سخت گیر تھا تو جیسے ہی وہ مدرسہ سے لوٹا تو اس کا والد بہت غصے میں تھا تم نے چوری اس لیے کی ہے کہ تونے داڑھی کٹوالی ہے۔ داڑحی نہ رکھ کر اللہ کی نافرمانی کرتاہے۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ بچے کا باپ ذہنی طورپر کمزور واقع ہواتھا کہ اس کو اول تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا بیٹا چوری کو پسند کرتاہے۔ دوسری بات یہ کے بیٹے کو نصیحت کرنے میں اس نے تند مزاجی کا رویہ اختیار کیا کہ وہ اس کی تربیت و اصلاح کا بہتر انداز اختیار کرتا تو یقینا بیٹے کے دل میں احساس ندامت پیدا ہوتا۔لازمی تھا کہ اس کو اللہ کے نام سے ان کو نصیحت کرتے اور بیٹے کو بآسانی چوری کی عادت سے محروم ہوجاتا۔ لیکن اس نے داڑھی کے بارے میں گفت و شنید تو کی مگر چوری کے نقصانات سے بیٹے کو مطلع نہیں کیا۔
علماء کو زندگی کے مراحل میں وعظ و نصیحت اور دعوت کے لیے دو اہم امور کا لحاظ و پاس رکھنا چاہیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ علماء اسلامی تعلیمات کی اشاعت کے لئے نرم گفتاری و خوش اسلوبی سے وعظ و نصیحت کریں کہ قرآن میں اللہ نے کہا ہے کہ نصیحت اچھے انداز سے کریں۔نہ کی آہ و بکا اور چیخ و پکار کے ذریعے سے لوگوں کو آگ سے ڈرائیں۔مختلف طبقات میں طمع و لالچ کی حرص ہوتی ہے اگر دعوت کا اسلوب بہتر ہوجائے تو جنت و جہنم کے بارے میں وعد و وعید کا بیان کرنے کا وعدہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں بھلائی و اچھائی فروغ پاجائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمۖ نے متشدد و تند مزاج لوگوں پر سخت غصہ و ناراضگی کا اظہارکیا۔فرمایا کہ ایسے لوگوں کی وجہ سے لوگ دین متین سے دور ہوجاتے ہیں۔یہ انداز دعوت درست نہیں ہے کہ سخت مزاجی کی وجہ سے لوگ دین سے دور ہوجائیں۔دوسری بات یہ ہے کہ داعیوں پر لازمی ہے کہ فرض و واجبات اور سنت وغیرہ کے تما مدارج کا لحاظ و پاس رکھتے ہوئے اہمیت و ضرورت کو بیان کریں۔ضروری ہے کہ مفاسد سے دورکرنے کی ترغیب دی جائے اور صالح اعمال کی تلقین مگر انداز تخاطب بہتر ہونا چاہیے۔تاکہ معاشرے کے طبقات بآسانی رجوع الی کی طرف متوجہ ہوں یہ جبھی ہوسکتاہے جب دعوت و نصیحت کا انداز حکمت و اچھے اخلاق سے دی جائے گی۔