کوئی شک نہیں کہ اللہ رب العزت ہی سب سے بڑاہے بلکہ مکاں و لامکاں میں سب سے بڑا ہے، اتنا کافی ہے کہ یہ کائنات (تمام کائناتیں) اس خالقِ حقیقی نے ہی بنائی ہے جو ہماری زندگی اور موت پر قادر ہے۔ایک مسلمان کے گھر پیدا ہونے والے بچے کو اسکے پیدا ہوتے ہی اللہ کی بڑائی کی خبردے دی جاتی ہے ، جیسا کہ آذان کی ابتداء اللہ کی بڑائی سے ہوتی ہے پھر نماز کی ابتداء اللہ کی بڑائی سے ہوتی ہے اور جب اونچائی کی جانب چڑھا جا رہا ہو تو بھی اللہ کی بڑائی بیان کرتے چڑھو۔جب دل سے اللہ کی بڑائی بیان کی جاتی ہے تو تن من کو دائمی سکون کی سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے ، یہی وہ احساس ہوتا ہے جو ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہمارا دل اللہ سے حقیقی معنوں میں محبت یا رغبت رکھتا ہے اور اسکا فرنمابردار ہے۔
اللہ تعالی نے جب انسان کوتخلیق کیا تو اس میں اپنی صفات کے ذرے بھی شامل کر دئیے۔ انسان خود کو مختلف نسلوں تقسیم کرتا چلا گیا، علاقائی سرحدیں قائم کرلیں اور ان سرحدوں میں اپنی اپنی مرضی سے ترتیب دیئے ہوئے رسم و رواج قائم کرتے چلے گئے۔دنیا ترقی کرتی چلی گئی لیکن انسان کا بنیادی طرز زندگی نہیں بدلا اور نا ہی بدل سکتا ہے، ایسا بھی نہیں کہ انسان نے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر وقت کو گزرتے ہوئے دیکھابلکہ انسان نے ہر ممکن اور ناممکن کوشش کر کے دیکھ لی مگر بنیادی طرز زندگی میں تبدیلی نہیں لاسکا۔ یقیناًیہ سوچ ذہن میں چھلانگے لگا رہی ہوگی کہ یہ بنیادی زندگی کے عقائد کیا ہیں۔ دن اور رات کا اپنے مقررہ وقت پرمکمل ہوجانا ، چاہے آپ کا کتنا ہی کام باقی ہومگر سورج اپنے مقررہ وقت پر کسی اور جگہ چمکنے کیلئے کروٹ بدل لیتا ہے اور تاریکی آپکے خطے کا حصہ بنتی ہے ، اسی طرح سے انسان کو بھوک لگنا، اچھا یا برا لگنا وغیرہ کہ اور دیگر بنیادی عقائد و معمولات جنہیں ہم کائناتی سچ کہتے ہیں۔
انسانوں میں بہت بڑے بڑے نام ہیں جنہیں تاریخ نے اسلئے یاد رکھا ہوا ہے کہ ان ناموں نے زمین پر رہتے ہوئے اور خدا کا عطاء کیا ہوا جسم لے کر خدا ئی کے دعوے کئے اور پھر ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو رب کائنات کے طے شدہ بنیادی عقائد ہیں۔ انسان کی پیدائش اللہ کے حکم سے اور انسان کی موت اللہ کے حکم کی محتاج اب ان دونوں کے درمیان کا وقت انسان اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کی بھاگ دوڑ کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے ۔ کائنات کے رازوں پر سے پردے ہٹتے ہی چلے جا رہے ہیں ،قدرت انسان کو بڑا بھی پیدا کرسکتی تھی مگر ایسا نہیں کیا کیوں کہ اگر انسان بڑا اور باشعور پیدا ہوتا تو شائد وہ کبھی اللہ کی نافرمانی کی طرف نہیں جاتا اور گناہوں کا وجود نا ہونے کے برابر ہوتا، جنت ہی جنت ہوتی دوزخ کا تصورنہیں رہتا ۔ اللہ نے انسان کو بلکل چھوٹا سا پیدا کیا اور والدین کی ذمہ داری لگائی کہ اب تم اس کی پرورش کرکے دیکھاؤ ، اب تم اسکو حلال رزق کھلاؤ، اب تم اسکو بولنا ، چلنا وغیرہ وغیرہ سیکھاؤ تاکہ والدین کے دل میں وہ سب کچھ تازہ ہوجائے جو کہ انکے ساتھ انکے والدین نے کیا ہوگا۔
انسان کو جسمانی طاقت ملی تو اس نے اپنے زور بازو سے اپنے سے کم طاقتور والے کو اپنا محکوم بنا لیا اور اس طرح سے اقتدارکا جنم ہوا اور انسان نے انسان کو محکوم بنانا شروع کر دیا اور وہ کسی بھی طرح سے اقتدار کی مسند تک پہنچ گیا۔ اصولی طور پر اقتدار یا اختیار کا مطلب یہ سمجھا جانا چاہئے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کی مخلوق رہتی ہے اور اس مخلوق تک اس کی بنیادی ضروریات کو پہنچایا جائے ۔ مگر انسان جیسے جیسے اقتدار پر مضبوط ہوتا چلا گیا اس پر طاقت کا نشہ چڑھنا شروع ہوگیا اور نشے کی حالت میں انسان ، انسان نہیں رہتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تکبر کرنے والے سے تدبر چھین لیا جاتا ہے اللہ رب العزت اپنی مخلوق پر یہ فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ وہ ایسے شخص کے ساتھ جو کہ انسانیت کی تذلیل بن چکا ہوتا ہے کہ کیا کرنا چاہئنگے۔ یعنی اسکے خلاف کلمہ حق بلند کرینگے یا پھر یونہی اسکے ظلم اور بربریت کا نشانہ بنتے رہینگے۔
سلطنت خداداد پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لینے سے پہلے عصر حاضر کے ان زمینی خداؤں کو اپنے اپنے ذہنوں میں لے آئیں جن کی وجہ سے آج دنیا رہنے کہ قابل نہیں رہی ہے ۔ ہمارے محترم نااہل وزیر اعظم صاحب اپنی ذاتی انا کی تسکین کی خاطر پورے ملک کو داؤ پرلگانے کیلئے تیار دیکھائی دے رہے ہیں ، گزشتہ کچھ دنوں سے انکے منہ سے جو کچھ نکل رہا ہے اور زبان جو کچھ بول رہی ہے وہ کسی ایسی آگ سے کم نہیں ہے جو جلانے پر آئے تو سب کچھ جلا کر راکھ کردے ، میاں صاحب کو کوئی یہ بتانے والا نہیں ہے کہ ہم پہلے ہی بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں انکی زبان سب کچھ دھماکے سے اڑانے کی سازش کرنے میں مصروف ہے۔ ہماری فوج اور عدلیہ بہت ہی تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتی دیکھائی دے رہی ہے انکا یہ تحمل اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کے حامی ہیں مگر اس جمہوریت کو کسی فرد واحد کی قطعی ضرورت نہیں اور وہ بھی ایسے فرد کی جسے ملک کے عزت و وقار کی کوئی پروا ہی نا ہواور وہ یہ چاہ رہا ہو کہ میرے بغیر جمہوریت تو چھوڑیں ملک نہیں چل سکتا۔ ایک اندازے کیمطابق یہ اپنے آپ کو سیاسی شھید کروانا چاہتے ہیں کہ فوج یا عدالت انہیں جیل بھیجے اور انکی سیاسی جماعت انکے اس اقدام پر انقریب منعقد ہونے والے انتخابات میں مظلومیت کاجھوٹا لبادہ اوڑھ کر ووٹ لیں اور پھر کسی طرح سے حکومتی نشتوں تک رسائی حاصل کریں اور پھر وہ میاں صاحب کو نا صرف اہل کروا لیں بلکہ چوتھی دفعہ کیلئے وزیر اعظم نامزد کروا دیں۔ پھر یہ صاحب اپنی رعونت کا وہ باب رقم کریں کہ دنیا یاد کرے۔ لیکن یہ بھول چکے ہیں کہ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا کیونکہ اب جہالت کا اندھیرہ چھٹتا چلا جا رہا ہے اور اب یہ شعور کی روشنی صرف شہروں تک محدود نہیں ہے یہ ملک کے دور دراز دیہی علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔
یہ وقت ہے کہ وہ لوگ ضرور شرمندہ ہورہے ہونگے کہ جنہوں نے بانی متحدہ پر وہ سارے الزامات عائد کئے جس سے ناصرف انہیں اپنی جماعت کی قیادت سے بلکہ پاکستانی سیاست سے مائنس کردیا گیا، کیا ایک عام آدمی کا ملک کے بارے میں خلاف بولنا زیادہ اہم ہوتا ہے یا پھر ملک کے تین دفعہ کہ منتخب وزیرَ اعظم کا بولنا اہمیت رکھتا ہے۔ آج جبکہ ملک کے بہت بڑے محب وطن ہونے کے دعویدار ملک کی عزت کو خاک میں ملانے کے درپے ہیں تو قانون حرکت میں نہیں آرہا اور نا ہی دیگر جماعتیں کھل کر اس ملک مخالف ہی نہیں بلکہ ملک دشمن بیان پر بھرپور مذمت کرتی نہیں ہیں۔ کیا مذکورہ بیانیہ ہمارے ان فوجی اور کشمیریوں سے بیوائی نہیں کہ جنہوں نے جام شھادت نوش کیا ہے (بے شک انکا معاملہ اللہ کیساتھ ہے) لیکن ملک کے وزیراعظم اور وہ بھی تین بار اس کرسی پر براجمان رہنے کیبعد بھی اس بات کا تدارک نہیں ہوسکا کہ کب ، کہاں اور کیا کہنا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا لیکن اس طرح کے لوگوں سے اور ان جیسے لوگوں کی پشت پناہی کرنے والوں کو عوام کو پہچان لینا چاہئے اور آنے والے انتخابات میں اپنابہت واضح موقف دنیا کو دیکھا دینا چاہئے اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ تکبر ، تدبر کھا جاتا ہے اور پھر صرف لعنت و ملامت مقدر کا حصہ بن کر رہے جاتے ہیں۔