تحریر : سید عبدالوہاب شیرازی قرآن حکیم اللہ رب العزت کا وہ کلام ہے جس میں تمام انسانوں کے لئے ہدایت رکھ دی گئی ہے۔بحیثیت مسلمان قرآن حکیم کا احترام بھی ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔ اور یقینا ہر مسلمان قرآن حکیم کا احترام کرتا بھی ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم کی طرف لوگ پشت نہیں پھیرتے، اگر کوئی کمرے یا مسجد میں قرآن کریم کی تلاوت کررہا ہو اور کسی دوسرے شخص نے وہاں سے جانا ہوتو وہ اس جگہ تک الٹے قدموں سے چلتا ہے جہاں تک قرآن حکیم کا نسخہ سامنے نظر آرہا ہو۔ اسی طرح مسلمان قرآن حکیم کے احترام میں قرآن سے بلند نہیں ہوتے۔ علماء نے یہ بات بھی احترام قرآن میں لکھی ہے کہ دنیا کی کسی بھی کتاب کو قرآن کے اوپر نہیں رکھنا چاہیے حتی کہ احادیث کی کتب بھی قرآن کے نیچے ہی رکھنی چاہیں۔عوام الناس میں قرآن حکیم کے احترام کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قرآن کی قسمیں اٹھوائی جاتی ہیں اور یہ یقین کرلیا جاتا ہے کہ قسم اٹھانے والے نے لازما قرآن کے احترام میں سچی بات کی ہوگی۔ عدالتوں اور تھانوں میں بھی قرآن حکیم کا ایک مصرف یہ دیکھا گیا ہے کہ فریقین کے سامنے قرآن رکھ کر گواہیاں اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بغیر وضو کے قرآن کو نہ چھونے کا تعلق بھی احترام قرآن ہی کا حصہ ہے۔
اس احترام کے ساتھ ساتھ لوگوں میں قرآن سے برکت کے حصول کے تصورات بھی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ نئی دکان کا افتتاح کسی مدرسے کے بچوں سے قرآن پڑھا کر کیا جاتا ہے۔ نئے مکان میں شفٹ ہونے سے پہلے بھی ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔بیٹی کی رخصتی کے وقت سرپر قرآن پکڑکر گھر سے رخصت کرنا اور جہیز میں قرآن کا نسخہ دینے کا رواج بھی عام ہے۔ہر مسلمان چاہے اسے قرآن پڑھنا آتا ہے یا نہیں، اگر پڑھنا آتا ہے تو تلاوت کرتا ہے یا نہیں، اگر تلاوت کرتا ہے تو مفہوم سمجھتا ہے یا نہیں ہر صورت میں ہر مسلمان کے گھر قرآن پاک کا ایک نسخہ غلاف میں لپٹا الماری میں ضرور رکھا ہوتا ہے، جو بوقت ضرورت حصولِ برکت کھول کر پڑھا یا چوما جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے ہاں یہ رواج بھی عام ہے کہ وہ ہر روز صبح الماری سے قرآن حکیم کا نسخہ نکال کر غلاف کھولتے ہیں اور چوم کر پیشانی سے لگا کر پھر لپیٹ کر رکھ لیتے ہیں۔ بعض لوگ روزانہ یہی عمل اپنے کاروبار ، دکان پر جانے سے پہلے دہراتے ہیں۔
یہ تو ساری وہ باتیں تھیں جو ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں، اب اس بات کو دیکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کا اصل اور حقیقی احترام کیا ہے؟ قرآن حکیم کی اصل اور حقیقی برکت کیا ہے؟ اس حوالے سے علامہ اقبال مرحوم کے نزدیک احترام قرآن کی حقیقت ظاہری رسومات سے کہیں ماورا ہے چنانچہ فقیر سید وحید الدین احترام قرآن کے زیر عنوان علامہ اقبال کا یہ واقعہ لکھتے ہیں: “علامہ کی چھوٹی ہمشیرہ کی شاد ی وزیر آباد کے ایک گھرانے میں ہوئی تھی۔ پھر غالباً اس لئے کہ ان کے یہاں شاد ی کے بعد ایک دو سال میں کوئی اولاد نہیں ہوئی ، ان کی خو ش دامن نے سسرال میں انھیں رہنے نہ دیا۔ تلخی اتنی بڑھی اور بات یہاں تک پہنچی کہ وہ مجبوراً میکے چلی آئیں اور کئی سال وہیں رہیں۔ ان کی ساس نے بیٹے کی دوسر ی شاد ی کر دی۔ پھر نہ معلوم کیا واقعات پیش آئے کہ وہ اپنی اس دوسری بہو پر بھی سوکن لے آئیں۔ علامہ اقبال کے بہنوئی ایک سعادتمند بیٹے کی طرح اپنی والدہ کی زندگی بھر خدمت اور اطاعت کرتے رہے۔ ماں نے جو کہا ، اس کی تعمیل کی لیکن ان کی وفات کے بعد انھوں نے اپنی پہلی بیو ی کو گھر لے جانا چاہا اور کئی مہینے تک کوشش جاری رکھی۔ وہ بار بار علامہ کے والد کے پاس طرفین کے رشتے داروں کو مصالحت کے لئے بھیجتے رہے۔ پہلے تو ادھر سے انکار ہو تا رہا۔
Community
پھر بہت کچھ سو چ بچار کے بعد علامہ کے والد اور والدہ صاحبہ دونوں رضامند ہوگئے۔ سا س اور سسر کی رضامند ی کا سہارا پاکر علامہ کے بہنوئی کچھ عزیزوں کو ساتھ لے کر اپنی سسرال آگئے۔ اتفاق کی بات کہ ان دنوں علامہ بھی سیالکوٹ گئے ہوئے تھے۔ انھیں جب اس کا علم ہوا کہ ان کے بہنوئی مصالحت کی غرض سے آئے ہوئے ہیں تو ان کی برہمی کی کوئی حد ہی نہ رہی۔ والد صاحب نے بہت کچھ سمجھایا مگر علامہ یہی کہتے رہے کہ مصالحت نہیں ہو سکتی۔ ہر گز نہیں ہو سکتی۔ آنے والوں کو واپس کر دیا جائے۔ان کے والد نے جب دیکھا کہ اقبال کسی طرح رضامند ہی نہیں ہو تے تو انھوں نے خاص انداز میں کہاکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والصّْلحْ خَیر (صلح میں خیر ہے)فرمایا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ علامہ اقبال خاموش ہو گئے۔ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ، جیسے کسی نے سلگتی ہوئی آگ پر برف کی سل رکھ دی ہو۔ ان کے والد نے قدرے توقف کے بعد علامہ سے پوچھا کہ پھر کیا فیصلہ کیا جائے ؟ علامہ نے جواب دیا ، وہی جو قرآن کہتا ہے۔ چنانچہ مصالحت ہو گئی اور چند دن کے بعد ان کے بہنوئی اپنی بیو ی یعنی علامہ کی چھوٹی بہن کو رخصت کرا کے اپنے گھر لے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ صلح خیر ہی ثابت ہوئی۔(روزگار فقیر) اس واقعے سے پتا چلتا ہیکہ علامہ اقبال مرحوم کے نزدیک قرآن حکیم کا حقیقی احترام یہ ہے کہ اس کے احکامات پر بلاچوں چرا عمل کرلیا جائے۔
ادھر قرآن کا حکم سامنے آئے اور ادھر مسلمان اپنے جذبات کو دبا کر اپنی رائے کو قرآن کی رائے سے بدل دے۔ علامہ کے ہم عصر ایم اسلم لکھتے ہیں: ” میں نے متعدد بار قرآن مجید کو ان کے مطالعے کے میز پر دیگر کتابوں کے ساتھ پڑا دیکھا۔ ایک مرتبہ میں نے ادب کے ساتھ انھیں اس طر ف متوجہ کیا تو فرمانے لگے : یہ کسی قیمتی اور خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر اور عطر میں بسا کر اونچی جگہ پر رکھنے والی کتاب نہیں بلکہ یہ تو انسان کے ہر وقت کام آنے والی کتاب ہے۔ چونکہ مجھے اکثر اس کے حوالے کی ضرورت پیش آتی ہے اس لیے یہاں رکھی ہے (افکار اقبال) یعنی قرآن تو ایسی کتاب ہے جو ہر وقت کام آنے والی کتاب ہے، غلافوں میں لپیٹ کر صرف برکت کے لئے رکھنے کی کتاب نہیں۔لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے، ہم نے قرآن کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا ہے، جب اپنا دنیاوی مفاد ہوتا ہے تو ہم اسے اٹھاتے ہیں، گرد صاف کرتے ہیں اور چومتے ہیں، باقی ہمارے کاروبار زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ علامہ اقبال ارمغان حجاز فارسی میں کہتے ہیں: برہمن ازبتاں طاق خو د آراست تو قرآں از سر طاقے نہادی برہمن نے اپنے طاق کو بتوں سے سجا یا ہے اور اے مسلمان تو نے قرآن کو طاق پر رکھ چھوڑا ہے۔ ایک اور مقام پر ہمار ے معاشر ے کی “رسوم قرآنی “پر اپنے سوز دروں کا اظہار مسلمان کو مخاطب کر تے ہوئے یوں کر تے ہیں : بہ بند صو فی و ملا اسیر ی حیات از حکمت قرآں نگیر ی بآ یا تش تراکار ی جزایں نیست کہ از یسینِ اْو آساں بمیر ی
اے مسلمان! تو صوفی و ملا کے فریب کم نگہی اور کج ادائی کا اسیر ہے اور حکمت قرآں سے پیغام حیات اور اسلو ب زندگی حاصل نہیں کر رہا۔ قرآن کی آیات سے تیرا تعلق بس اتنارہ گیا ہے کہ تیرے ہاں کسی کے وقت نزع سور ہ یسین کی تلاوت بس اس لیے کی جاتی ہے کہ مرنے والے کا دم آسانی سے نکل جائے۔ حضور ? کا فرمان ہے: اے اہل قرآن اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاو، اور اسے خوبصورت آوازوں سے پرھو، اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاو۔(بیہقی) لاتتوسدوا یعنی پس پشت نہ ڈالو،سہارا نہ بناؤ۔ہم نے اپنے مفادات کے لئے سہارا بنادیا ہے، دکان،کاروبار کی برکت، قسمیں اٹھانے اور مرتے ہوئے شخص کے پاس سور? یسین پڑھ لیتے ہیں، بیٹی کو ٹی وی کے ساتھ جہیز میں قرآن بھی دے دیتے ہیں۔ ہمارے حال پر حضور ۖ کا یہ فرمان صادق آتا ہے۔ ان اللہ یرفع بہذاالکتاب اقواما ویضع بہ آخرین(مسلم) یعنی دنیا میں بحیثیت قوم ہماری تقدیر اس کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ خطبہ حجة الوداع میں فرمایا: وقدترکت فیکم مالن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ (مسلم) میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ جب تک اس کے ساتھ چمٹے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب قرآن ہے۔ چنانچہ قرآن کا حقیقی احترام یہی ہے کہ قرآنی احکامات ہماری زندگی، ہمارے گھر، ہماری دکان ، ہمارے معاشرے او ر ملک میں نظر آنے چاہیے اور قرآن کی حقیقی برکت بھی یہی ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات پر عمل کرکے اس اعلان خداوندی کے مستحق ٹھہریں جو سورہ اعراف آیت96 میں فرمایا: اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔