تحریر: لقمان اسد آج کے کالم کا موضوع تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے لیکن پنجاب کے گورنر کے استعفی کی خبرنے اس موضوع پر لکھنے کو مجبور کر دیا، سابق گورنر چوہدری سرور نے اپنی عمر کا زیادہ ترحصہ یورپی ممالک خاص طور پربرطانیہ میں گزاراہے میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کے قریبی شرکاء میں ان کا شمار کیا جاتا ہے یہ تعلق شاید میاں برادران کی 12 اکتوبر 1999 کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جلاوطنی کے دنوں میں مضبوط ہوا چوہدری سرور کے بارے میں یہ خبریں بھی عام رہیں کہ جلاوطنی کے دنوں میں انہوں نے میاں صاحبان کی ہرممکن مدد کی۔
اور بعض معاملات جو انتہائی پیچیدہ اور سنجیدہ بھی تھے انہوں نے ان مشکل معاملات کی گتھی سلجھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، شاید اس وجہ سے الیکشن2013کے بعد جب اقتدار میاں صاحبان کے ہاتھ آیا تو انہوں نے چوہدری سرور کے احسانات کا بدلہ چُکانے کی غرض سے انہیں پنجاب کی گورنری کا منصب پیش کیا۔
Exile
جلاوطنی کے دنوں میں میاں صاحبان سے راہ رسم ودوستی کا جو تجربہ یا مشاہدہ چوہدری سرور کرپائے تھے وہ بھی انہی دنوں کے دوستانے کی سنہری یادوں کو ذہن میں رکھ کر گورنری کے منصب کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ہوں گے اور سوچا ہوگا کہ وہ پاکستان کی خدمت بہتر طریقے سے کرسکیں گے۔لیکن انہیں شاید پاکستان کے زمینی حقائق کا ادراک نہ تھا اور یہ اندازہ بھی ہرگز انہیں نہ ہوگا کہ پاکستان کے سیاسی راہنما کسی قدر طوطا چشم ہیں اور جب مشکل حالات سے ان کا پالا پڑتا ہے۔
تب انکے رویے محبتیں، خلوص اور انصاف پسندانہ عزائم کیا ہوتے ہیں جبکہ مشکل دور گزر جائے اور بھلے دنوں کا سورج طلوع ہوتا یہ دیکھ لیںتو ایک دم کس انداز میں آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں اور مشکل وقتوں کے دوستوں اورمحسنوں کو فراموش کردینے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرتے چوہدری سرور پاکستان آگئے اور گورنر بھی بن گئے ان کو گورنر بنے کوئی لمباعرصہ نہ گزرا تھا کہ ملک میں احتجاج کی سیاست کا آغاز ہوگیا۔ (جاری ہے)