سچ کی کوئی قیمت

Truth

Truth

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس
کون کہتا ہے کہ سچ کو خریدا یا بیچا جا سکتا ہے ؟ یا سچے کو خریدا جا سکتا ہے ؟ اور ویسے بھی جو بک گیا جو کبھی سچا تھا ہی کب ؟ کئی لوگوں کے لیئے یہ افسانوی بات ہو سکتی ہے لیکن یہ کوئی افسانہ نہیں ہے کہ اسی ماہ خاص محرم الحرام میں صدیوں پہلے یہ سبق اس کائنات کے سب سے قیمتی گھرانے نے ہمیں دے دیا ۔ کہ بات اگر سچ ہے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ جیسے مخالف کی بھی مان لی اور اگر بات غلط تھی تو انہی باپ کے بیٹے یذید شیطان کی بھی ماننے سے انکار کر دیا ۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ علی الاعلان انکار کیا۔ ایک ایسا انکار جس نے سچائی کی تاریخ رقم کر دی ۔ یہ کوئی ضد نہیں تھی کہ ایک فاجر ، فاسق ۔ زانی ، شرابی اور بے دین شخص جسے دنیا یذید کے نام سے جانتی ہے ، کوکسی بھی قیمت پر لوگوں کی عزتوں کی حفاظت کا ذمہ نہیں دیا جا سکتا ۔ لوگوں کے جان اور مال کا محافظ نہیں بنایا جا سکتا ، جو شخص خدا کا خوف ہی نہیں رکھتا وہ کیسے خدا کی مخلوق کے لیئے مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ جس شخص کا اپنا کوئی کردار ہی نہیں ہے وہ کبھی خدا کی مخلوق کے لیئے اچھا ثابت نہی ہو سکتا ۔ ایسا آدمی حکمران توکیا کسی کے گھر کا چوکیدار بننے کا بھی اہل نہیں ہے ۔ یہ امام حسین علیہ السلام کا سچ ہی تھا جو اپنے پورے کنبے کو لیکر میدان کرب و بلا کی جانب کو چ کر گیا۔

کیا آپ علیہ السلام نہیں جانتے تھے کہ کیا ہونے جا رہا ہے ؟ جانتے تھے اپنے بچپن سے جانتے تھے کہ ایک روز مقتل سجایا جانا ہے اور اس مقتل میں پیارے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پیارے نواسے کو اپنے پورے کنبے کے ساتھ نیزے پر چڑھایا جائیگا ، جرم سچائی میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی نہیں بخشا گیا تو ایک عام سے انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ سچ بھی بولے اور اسکی قیمت بھی لوگوں کو نہ چکائے ۔ کیوں کہ یہ ہی حقیقت ہے کہ سچ بولنے والے کو ہی ہمیشہ سچ کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے ۔ یہ قیمت کبھی تو سقراط زہر کا پیالہ پی کر چکاتا ہے ، کبھی منصور سولی چڑھ کر چکاتا ہے اور جب آخری حدوں کو چھو جائے تو حسین ابن حیدر کی طرح سر کٹا کر اور کنبے کا کنبہ قربان کر کے چکاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ جتنا بڑا مرتبہ ہو اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہوتی ہے اور جتنا بڑا مقام ہو اتنا ہی بڑا امتحان بھی ہوتا ہے اور جتنا بڑا کردار ہو اتنی ہی بڑی قربانی بھی دینی پڑتی ہے ۔ ایک عام آدمی جب کردار کی مضبوطی کی قیمت چکاتا ہے تو اپنی جان وار دیتا ہے لیکن جب حسین علیہ السلام جیسا خاص انسان قیمت چکاتا ہے تو اپنا پورا خاندان اس پر وار دیتا ہے خاندان بھی وہ کہ جسے دیا بجھا کر یہ اختیار بھی دیا گیا ہو کہ جو چاہے بخوشی قربانی کے اس سفر سے واپسی کی راہ لے اس پر کوئی ملامت نہیں ۔ لیکن خاندان ہو حسین علیہ السلام کا اور سچ کے میدان سے بھاگ جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ حسین علیہ السلام کے گھرانے کا ہر شخص خود ایک حسین بن چکا تھا ۔ جنہیں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ

*جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
سچ تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کیوں کہ جو کچھ اس قافلے نے کیا وہ سب حق سے بھی کہیں زیادہ کی ادائیگی تھی کسی بھی انسان کے لیئے ۔ قیامت تک کسی بھی انسان کو جناب حسین علیہ السلام نے یہ کہنے کا موقع ہی نہیں چھوڑا کہ جنت کے جوانوں کا سردار بننے کے لیئے تو نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ہونا ہی کافی ہے ۔ بلکہ یہ عظیم قربانی دیکر یہ ثابت کر دیا کہ نانا جان باکمال ہیں تو نواسہ بھی بے مثال ہے اور بے مثال لوگ ہی سب سے بلند درجات کے قابل ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ کبھی نااہل لوگوں کی حمایت نہیں کیا کرتے ۔ سچائی کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے اور اس سچائی کی قیمت لیا نہیں کرتے بلکہ اس کی قیمت چکایا کرتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو ۔ کبھی دنیا یہ قیمت سچائی پر بہتان لگا کر لیتی ہے کبھی اس کے خاندان کو تڑپا کر لیتی ہے کبھی اس کی یا اسکے پیاروں کی جان لیکر لیتی ہے لیکن لیتی ضرور ہے ۔ کبھی اس کے مالی نقصانات کر کے لیتی ہے ، ہم تو ویسے بھی اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں کہ ،

*جہاں جگنو پکڑ کے ان کو آگے بیچ دیتے ہیں
یہاں سچ بولنے والوں کی سانسیں کھینچ لیتے ہیں

اگر ہم یذیدوں کے جھوٹ میں انکا ساتھ دینے والے نہ ہوتے تو آج ان کی غلامی پر مجبور بھی نہ ہوتے ۔ انکو جھک جھک سلامیاں دینے پر بے بسی سے ہاتھ بھی نہ ملتے ، سچ بولنے کی اگر قیمت چکانی پڑتی ہے تو یاد رکھیں جھوٹ بولنے اور جھوٹ کا ساتھ دینے والوں کو بھی وقت کبھی نہیں بخشتا ، ہر ایک کو خدا تعالی کے حکم سے وقت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہی پڑتا ہے ۔ انہیں بھی اس جھوٹ کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے انہیں بھی قربانی کا دنبہ بننا پڑتا ہے مگر ان دونوں قربانیوں مین ایک بہت بڑا فرق ہمیشہ نمایاں رہتا ہے کہ

*جس ڈھب سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جان کی کوئی بات نہیں یہ جان تو آنی جانی ہے

کیوں کہ وقت بڑا بے رحم منصف ہے اسی لیئے سچ تو قیمت چکا کر زندہ و جاوید ہو جاتا ہے جب کہ جھوٹ کو ہمیشہ کے لیئے سزائے موت ہو جاتی ہے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس