تحریر : مسز جمشید خاکوانی سیالکوٹ میں بھتہ نہ دینے پر ججا بدمعاش نے اپنے ساتھیوں کے ہمرا خواجہ سرا پھول کے ڈیرے پر دھاوہ بول دیا اور شنایا نامی خواجہ سرا کو چارپائی پر الٹا لٹا کر ننگا کر کے بیلٹ سے اس کی چھترول کی اس دوران ججا نے اپنا پائوں شنایا کی گردن پر رکھا ہوا تھا جو کہ انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے لیکن خواجہ سرائوں کے بیان کے مطابق اس سے بھی گری ہوئی حرکتیں کی گئیں انہیں بدمعاشوں نے اپنا پیشاب پلایا، ریپ کیا ان کے بال کاٹے اور جسمانی تشدد بھی کیا جو وڈیو سامنے آ چکی ہے اس میں ججا کو خواجہ سرا کی گردن پر پائوں رکھے اور بیلٹ سے اس پر تشدد کرتے دکھایا گیا ہے۔
وڈیو میں ملی جلی آوازوں کے ساتھ خواجہ سرا کی چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا وڈیو جان بوجھ کر بنائی گئی؟جرم ،ظلم اور گناہ کی تشہیر اس سے بڑا گناہ ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے لوگوں کے دلوں سے خوف ختم ہو جاتا ہے خاص طور پر اس صورت میں کہ گذشتہ چند سالوں سے سفاکیت کی تشہیر تو ہو رہی ہے لیکن زمہ داروں کو سزا نہیں مل رہی بلکہ انہیں کسی نہ کسی طرح بچا لیا جاتا ہے اور وہ اپنی بریت پر وکٹری کے نشان بناتے باہر آتے ہیں اور ساری ساری رات جشن مناتے ہیں۔
Supreme Court
انصاف کا جنازہ نکالنے میں حکومت ،میڈیا اور عدالتیں برابر کے شریک ہیں میڈیا پر ہونے والی تشہیر جرائم پیشہ افراد کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے اس کے بعد وہ جب انصاف خرید کر باہر آجاتے ہیں تو مزید لوگوں کو مہمیز ملتی ہے اس سفاکیت کی ابتدا غالباً رینجرز پر بنائی جانے والی وڈیو سے ہوئی تھی جو سیکورٹی فورسز کو بدنام کرنے کی بھی پہلی کوشش تھی اور اس کے بعد سیالکوٹ کے دو نوجوان بھائیوں کو جس بے دردی سے ڈنڈے مار مار کر موت کے گھاٹ اتارہ گیا یہ انسانیت سوز واقعہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اس کے بعد یہ سلسلہ تھما نہیں امیر اور بگڑے ہوئے رئیس زادوں نے کئی ایسے کارنامے سر عام انجام دیئے جن میں شاہ رخ جتوئی والا واقعہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں معصوم نوجوان کی ہلاکت، عدنان کانجو اور اس سے جڑے کئی واقعات جن میں کسی ایک کو بھی سزا نہ ہو سکی تب طاقت کا ایک نیا کھیل شروع ہوا جو اب انتہائوں کو چھوتا نظر آ رہا ہے جرم ہوتا ہے۔
بے شرمی سے اس کی وڈیو بھی بنا لی جاتی ہیں سب ثبوت سامنے ہونے کے باوجود مجرم مکھن سے بال کی طرح نکال لیے جاتے ہیں قانون اتنا بے بس ہو چکا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے چودہ افراد کے قتل کی رپورٹ تک منظر عام پر نہیں لا سکتا یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہر جرم کی پشت پر حکومتی کارندے موجود ہیں قانون ٹوٹا ہوا آئینہ بن چکا ہے جس میں اہل انصاف کو اتنے چہرے نظر آتے ہیں کہ وہ گھبرا کر سب کو ہی چھوڑ دینے میں عافیت سمجھتے ہیں حالانکہ اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے اپنے پرائے امیر غریب طاقتور اور کمزور میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہمارے ملک میں ظلم انڈے بچے جن رہا ہے اور انصاف کے صاحب اولاد ہونے کی دور دور تک کوئی امید نہیں کوئی مجرم پکڑا بھی جائے تو ایم این اے ایم پی اے خود تھانوں پر حملے کر کے ملزم چھڑا لیتے ہیں تحقیقات کی نوبت ہی نہیں آتی نتیجتاً بے راہ رو لوگوں کے لشکر تیار ہو رہے ہیں ایسی ایسی وڈیوز دکھائی جا رہی ہیں جو کسی ہارر مووی سے کم نہیں ہوتیں۔
ایک شخص اپنے یا شائد کسی اور کے تین چار سالہ بچے کو پہاڑ سے لٹکائے بالکل کنارے پر کھڑا تھا بچہ خوف کے مارے چیخ رہا تھا لیکن وہ اسے صرف ایک ہاتھ سے پکڑے قہقہے لگاتے ہوئے وڈیو بنوا رہا تھا اس خوف سے بے نیاز کہ اگر وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تو؟اسی طرح ایک وڈیو میں تین چار سال کے بچے کو ایک خونخوار کتے سے لڑوایا جا رہا تھا بچے کو کہا جاتا وہ وائپر سے کتے کو مارے جب وہ مارتا تو جواب میں کتا بھی اس پر حملہ کر کے اسے کاٹنے کی کوشش کرتا اس پر بچہ چیختا تو وڈیو بنانے والا نوجوان ہنسنا شروع کردیتا اور یہ سین دوبارہ شروع ہو جاتا ۔ایک وڈیو میں پانچ سال تک کے بچوں کو ایک فوجی جوان کے اعضا کاٹنے کی تربیت دیتے دکھایا گیا تھا زندہ فوجی کو اوندھے منہ زمین پر لٹایا ہوا تھا اس کے ہاتھ پائوں میں میخیں ٹھوکیں گئی تھیں وہ بے چارہ منہ میں کپڑا ٹھنسا ہونے کی وجہ سے آواز بھی نہیں نکال پا رہا تھا۔
Justice
ایک شقی القلب درندہ تین چار بچوں کے ہاتھ میں چھریاں پکڑائے انہیں بتا رہا تھا کہ کس طرح گردن کاٹنی ہے اور کس طرح باقی اعضا بخدا میں راتوں تک وہ وڈیو دیکھ کر سو نہیں سکی تھی اس طرح کی وڈیوز بنانے والے کیا جرم میں برابر کے شریک نہیں؟ ان کو نہ پکڑنے سے مجرم ہیرو بن رہے ہیں بلکہ پیسہ بھی کما رہے ہیں کیونکہ سنا ہے جتنی کوئی وڈیو مقبول ہوتی ہے اتنا معاوضہ ملتا ہے اس لیے اب لوگ اندھے ہو چکے ہیں معصوم بچوں کے ساتھ بدفعلی کی وڈیوز بنانے والا نون لیگی ایم پی اے با عزت بری ہو گیا کیا ان بچوں کا انجام کسی کو نظر آیا؟ یہ نسل جو اس قسم کے حالات دیکھ کر پروان چڑھ رہی ہے ان کے اندر انسانیت کا کتنا درد ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں دور کیوں جائیے چند ماہ پہلے رحیم یارخان میں ایک نجی جیل کا انکشاف ہوا جہاں لوگوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ہیں یہ بھی ایک نون لیگی کی جیل کا حال تھا کسی کے خلاف کاروائی ہوئی؟ اور تو اور عمر رسیدہ خواتین کی سوتے میں وڈیو بنا کر اپ لوڈ کر دی جاتی ہیں جن میں ان کی برہنگی دکھائی جاتی ہے ظاہر ہے انسان سوتے میں بے خبر ہوتا ہے اور یہ یقینا کسی گھر کے ہی نوجوان کا کام ہوگا جو یہ وڈیو بیچ کر نشے کی لت پوری کر لیتا ہو گا ۔اور تو اور جن غریبوں کو غسل خانہ گھر میں میسر نہیں جو اینٹیں رکھ کے غسل خانے کا کام لیتے ہیں۔
ان غسل خانوں میں نوجوان لڑکیاں عریاں ہو کر اپنی ہی وڈیو بناتی ہیں اور پھر وہ وڈیوز اپ لوڈہو کر ساری دنیا دیکھتی ہے نہ جانے اخلاقیات کا جنازہ نکلنے پر کتنے گھر برباد ہوتے ہونگے لیکن اس ننگے سچ کو روکنے میں کوئی سنجیدہ نہیں ہم سیاست کی بھول بھلیوں میں اتنے گم ہو چکے ہیں کہ اب ایسی چیزوں پر توجہ دینے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں سچ تو یہ ہے جب حکمران ہی انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہوں تو عام لوگ تو اس سے کھلواڑ کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھیں گے ہی ۔۔خواجہ سرا کے اس کیس میں بھی کچھ نہیں ہونے والا چھ بندوں کو حراست میں لینے کا دعوی ضرور کیا گیا ہے لیکن جو لوگ اپنے ظلم کی خود وڈیو بناتے نہیں ڈرتے ان کو کوئی پشت پناہی تو میسر ہو گی نا سیاں بنے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا؟