سفید چاندی جیسے بال جھریوں بھرے ہاتھ اور چہرے پے پھیلاہوا جال جھریوں کا جا ل انکی نہ صرف ادھیڑ عمری کا حال کہ رہا تھا بلکہ اسکا ثبوت انکے بڑی بڑی عمر کے پوتیاں اور پوتے بھی تھے جو اس بڑے سے گھر میں خوش حالی کا مظہر تھے یہ میری پھوپھو کے ملنے والے تھے پھوپھو جب جب کراچی سے آتیں تو ان کو ضرور ملتیں ـ کیوں ؟ نہیں جانتی تھی لیکن ایک بات جو وہاں سب سے عجیب لگتی وہ تھی اُن بوڑھی خاتون کے سیاہ اور جھریوں بھرے ہاتھوں میں پہنی ہوئی موٹی موٹی انگوٹھیاں گلے میں موٹی سی مالا اور کانوں میں بڑے بڑے بالے مجھے لگتا کہ ان خاتون کے اپنے وزن سے زیادہ یہ وزنی ہیں ـ
انکی جتنی عزت سب کرتے نظر آتے ہیں یہ اب خال خال ہی رہ گئی ہے ـ ہمارے گھروں میں بزرگوں کو ایسی شان ایسا رتبہ کہ زیورات سے سجا بنا کے رکھا جائے نظر نہیں آتا ـ انکے بیٹے آئے تو سب سے پہلے وہ انکے پاس بڑے سے تخت پوش پر بیٹھے انکا ماتھا چوم کر خوب دعائیں دیں بڑی اماں نے اسکے بعد وہ اندر ہماری طرف آئے ـ میری پھوپھو نے انہیں میری بے چینی بتائی ـ کہ ہر بار پریشان ہوتی ہے کہ جو ماحول اس گھر کا ہے وہ کہیں اور نہیں ہے ـ ـ یہ کہانی اوراسکے کردار جیتے جاگتے ہیں اس کو پڑہیے اور سوچئے کہ آج ہم نے اس ملک کا کیا حشر کیا جسے ان عظیم انسانوں نے کیسے جتن کر کے حاصل کیا تھا ـ
آج جو ہم کر رھے ہیں کہ اس ملک کو ایک ہوتے ہوئے بھی ایک چار دیواری کے اندر رہ کر بھی ہم نے کئی حصوں میں بانٹ دیا ـ لسانی صوبائی مذہبی اخلاقی غرضیکہ کوئی شِق ہم نے ایسی چھوڑی نہیں کہ جسے خود پے لاگو کر کے ملک کو توڑا نہ ہو ـ ایک غلام کیسے کیسے غلامی کو ذلت کو دیکھتا ہے اور کیسے آزادی کی روشن ہوتی شمع کی طرف لپکتا ہے کہ جس کی طرف جاتے ہوئے جان کا عزت کا اور مال کا خطرہ چار سُو ہے ـ لیکن اللہ نبی کلمہ اسلام آزادی عزت حفاظت یہ وہ باتیں تھیں جو انکو کشاں کشاں اپنی منزل کی طرف لے جا رہی تھیں ـ
جیسے ہی سبز ہلالی پرچم نظر آتا تو جاں بلب بزرگ خاتون کہتیں کہ مجھے ایک بار پاکستان کی پاک مٹی کو دیکھ لینے دو اور یہ کہتے ہوئے وہ ایک مسکراتی نظر پاک سرزمین پے ڈالتیں اور ایک نظر لہراتے ہوئے حسیں پرچم پر اور سکون سے اپنی تھکاوٹ ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند کر پوری کر لیتیں ـ اس گھرانے کی کہانی بھی ان لاکھوں خاندانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی تھی ـ جو وہاں سے لُٹ ُُلُٹا کے آئے تھے ـ آئیے سنتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ایسا ہوا کہ وہ محترم خاتون اس شان سے مسند پر گاؤ تکیۓ کے ساتھ تفاخر سے بیٹھی ہیںـ
رحمتاں ایک جھٹکے سے اٹھی اور دوڑتی ہوئی اس سمت دوڑی جہان شاید موت بھی اسکی منتظر ہو سکتی تھی اتنی نازک گھڑی میں باقی قافلے والے یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے ـ کسی کی آواز کسی کی دہائی اس ماں کی تڑپتی ممتا کو سنائی نہی دی سنائئ دی تو معصوم مختار کی بھوک سے بِلکتی آواز جو اس وقت صرف اسکی ماں سن سکتی تھی ـ قافلے والوں نے اللہ بخش کو سمجھا بُجھا کے خطرے سے آگاہ کیا ـ شام سے پہلے پہلے انہیں واہگہ پہنچنا ہے ـ
اس لیے وہ مجبور ہیں ـ اسکی بیوی کی غلطی کی سزا سنگین صورت بھی اختیار کر سکتی ہے ـ خالی ہاتھ بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ بھی وہ اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا سمجھ رہا تھا ایک نظر دھول اڑاتی راہگزر کو دیکھا ـ اور پھر ایک نظر آگے بڑہتے ہوئے قافلے کو دیکھا ـ آگے حیات اور پیچھے موت تھی ـ چننا اسکے بس میں تھا ـ ایک پاگل ماں تو موت کی طرف چلی گئی ـ لیکن پانچ بچوں کا ڈرا سہما ہوا وجود اس وقت نازک سوال کر رہا تھا ـ اور اس نے وقت کی نزاکت کو مان کر وہی کیا جو وقت کا تقاضہ تھا ـ اپنے بچوں کے سوالیہ چہروں کو اور موت کے لرزتے سایوں کو دیکھ کر خاموشی سے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر قافلے کی سمت مڑ گیا ـ
شائد اسی لئے بہت پہلے فیصلہ ھو گیا کہ مان کا حصہ اولاد پر باپ سے کئی گنا زیادہ ہے ـ ممتا کے نو ماہ ایک ایک لمحہ جس کرب اور ازیت سے وہ اس کونپل کو سینچتی ہے اور کیسے اسکی آبیاری اپنے خون سے کرتی ہے ـ صرف ماں اورکوئی اسکا اندازہ نہیں کر سکتا ـ رحمتاں پاگلوں کی طرح ہر خطرے سے بے نیاز اندھا دھند بھاگ رہی تھی ـ شومئی قسمت یہ راستہ ایک پختہ پگڈنڈی کی طرح تھا ـ اسے بھٹکنا یا سمت تلاش کرنی پڑتی تو صورتحال کچھ اور ہوتی وہ کتنابھاگی کچھ اندازہ نہی ـ
لیکن وہ سایہ دار شجر میں آگئی جب وہی مانوس آواز ہاں وہی آواز اسکے مختارے کی آواز اسکے کانوں نے سُنی ـ وہ دیوانہ وار اس طرف بھاگی ـ تو دیکھا کہ کھیتوں کے درمیان وہ بھوک سے بِلک رہا ہے ماں کی پیاسی آنکھوں سے شدتِ جزبات سے جو سوتے پھوٹے تو شائد عرش کو بھی ہلا گئے ھوں گے ـ بانہوں کے حلقے میں لے کر اسکو پاگلوں کی طرح چومنے لگی ـ ممتا کے آبِ حیات نے اسکے حلق کو تپتی زمیں میں خود جل کر تر کر دیا ـ پیٹ بھرا تو اسکے خشک ہونٹوں پر وہی پیاری سی فرشتوں جیسی مُسکان آگئی ـ
اپنے گمشدہ خزانے کو فخر سے گود میں اٹھائے وہ واپسی کے سفر پر تنِ تنہا چلنے لگی ـ ایک عجیب سی طاقت کا احساس تھا جیسے اللہ نے دل میں یہ طاقت ور احساس ڈال دیا ہو کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے ـ وہ جو قافلے کے ساتھ نڈھال اور پژ مردہ چال کے ساتھ چل رہی تھی ـ اب ایسے فراٹے بھرتی ہوئی اپنے جگر گوشے کو اٹھائے جا رہی تھی ـ جیسے عام دنوں میں وہ آتی جاتی ہو گاؤں میں دور سے بیلوں کی ٹن ٹن اسکے حوصلے اور بلند کر گئی ـ اور اسکی رفتار اور تیز ھو گئی ـ سر جھکائے اللہ بخش جانے کیا کیا سوچ رہا تھا ـ رحمتاں کے ساتھ بتائے ہوئے وہ تمام لمحے وہ تمام سال ایک ایک کر کے اسکی نظروں کے سامنے گھوم رھے تھے ـ آنکھیں بھیگ رہی تھیں ـ وقار کی خوشی سے بھرپور چیخ اماں ابا nاللہ بخش مڑا تو سامنے اسکو صحیح سلامت دیکھنا ایک معجزہ ہی لگا ـ
اور اس سے بھی بڑا معجزہ کہ جب لوگ سامنے اپنوں کو کٹتے ہوئے دیکھ رھے ہیں ـ اسکے سب اپنے سلامت اسکے سامنے کھڑے ہیں ـ قافلے والے کو رکنے کو تیار نہیں تھے ـ اللہ بخش کو شکرانے کے نفل ادا کرتے دیکھ وہیں ہر خطرے سے بے پرواہ اسکو رشک اور حیرت سے دیکھنے لگے ـ یہ لوگ خیریت سے پہنچےـ اور ایک نیا آغاز زندگی کا ہوا ـ مختار نے ہوش سنبھالتے ہی ہر خاص و عام سے ممتا کی یہ لازوال کہانی سنی ـ اسے اپنے اوپر فخر ہوتا کہ اسکی ماں نے اپنی جان اپنی عزت اپنے بچے اس کیلئے چھوڑے اور کیسے تنِ تنہا اسکو کھوج لائی ـ اگر ماں اس وقت قافلے والوں کے سامنے ہار مان لیتی تو؟
مختار یہاں سے آگے سوچنے کی ہمت ہی نہیں رکھتا تھاـ خوفناک کتے جو ان دنوں سکھوں ہندوؤں کی شکل میں بھی پھر رہے تھے ـ وہ کیسے اسے بھنبھوڑ سکتے تھے ـ یا کوئی کرپان یا کوئی خنجر تب مختار نے قسم کھائی کہ وہ اپنی ماں کی اتنی عزت اتنی قدر کرے گا ـ کہ دنیا اسکی مثال دے گی سونا پہلے اللہ بخش بنوا کے نہی دے سکا تھاـ مان کی حسرت مختار نے پوری کی وہ لاکھ شور مچاتی رہیں لیکن لاڈلے بیٹے نے اپنی قسم دے کے چُپ کروا دیا باقی بھائی بھی صاحبِ حیثیت تھے لیکن مختار کے بارے میں یہ مشہور ہو گیاـ کہ مٹی کو ہاتھ لگاتا ہے تو سونا بن جاتی ہےـ کیونکہ اسکے ساتھ ماں کی خاص دعا ہے ـ
Tears
باقی بھائی لڑتے ماں سے تکرار کرتے لیکن رحمتاں بھی شائد جانتی تھیں کہ ایسی قدر اور ایسی عزت اور کوئی نہی کر سکے گا ـ اس لئے جاتی سب کی طرف لیکن رہتی یہیں تھیں ـ اتنی محویت سے سن رةے تھے کہ آنکھوں سے بہ کر آنے والے آنسووں کا احساس ہی نہی ہوا ـ اسکے بعد تو ہمیں وہ جھریوں بھرا محترم چہرہ بہت ہی عظیم اور پُر نور لگا یہ تو ایک ماں دیکھی اور کہانی سُن لی ـ لیکن نجانے کتنی مائیں اور ہوں گی جنہوں نے ایسے ہی دکھ اٹھائے ہوں گے ـ
لیکن شاید وہ رحمتاں بی بی کی طرح خوش نصیب نہ ہوں ـ دیکھئے شائد آس پاس کوئی اور جھریوں بھرا چہرہ ماضی کا بند باب لئے آپکا منتظر ہو اور ممتا کی ایک اچھوتی اور انوکھی کہانی آپکے لئے منتظر ہو ـ رحمتاں ایک جھٹکے سے اٹھی اور دوڑتی ہوئی اس سمت دوڑی جہان شاید موت بھی اسکی منتظر ہو سکتی تھی اتنی نازک گھڑی میں باقی قافلے والے یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے ـ کسی کی آواز کسی کی دہائی اس ماں کی تڑپتی ممتا کو سنائی نہی دی سنائئ دی تو معصوم مختار کی بھوک سے بِلکتی آواز جو اس وقت صرف اسکی ماں سن سکتی تھی ـ
قافلے والوں نے اللہ بخش کو سمجھا بُجھا کے خطرے سے آگاہ کیا ـ شام سے پہلے پہلے انہیں واہگہ پہنچنا ہے ـ اس لیے وہ مجبور ہیں ـ اسکی بیوی کی غلطی کی سزا سنگین صورت بھی اختیار کر سکتی ہے ـ خالی ہاتھ بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ بھی وہ اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا سمجھ رہا تھا ایک نظر دھول اڑاتی راہگذر کو دیکھا ـ اور پھر ایک نظر آگے بڑہتے ہوئے قافلے کو دیکھا ـ آگے حیات اور پیچھے موت تھی ـ چننا اسکے بس میں تھا ـ ایک پاگل ماں تو موت کی طرف چلی گئی ـ لیکن پانچ بچوں کا ڈرا سہما ہوا وجود اس وقت نازک سوال کر رہا تھا ـ اور اس نے وقت کی نزاکت کو مان کر وہی کیا جو وقت کا تقاضہ تھا ـ اپنے بچوں کے سوالیہ چہروں کو اور موت کے لرزتے سایوں کو دیکھ کر خاموشی سے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر قافلے کی سمت مڑ گیا ـ
شائد اسی لئے بہت پہلے فیصلہ ھو گیا کہ مان کا حصہ اولاد پر باپ سے کئی گنا زیادہ ہے ـ ممتا کے نو ماہ ایک ایک لمحہ جس کرب اور اذیت سے وہ اس کونپل کو سینچتی ہے اور کیسے اسکی آبیاری اپنے خون سے کرتی ہے ـ صرف ماں اورکوئی اسکا اندازہ نہیں کر سکتا ـ رحمتاں پاگلوں کی طرح ہر خطرے سے بے نیاز اندھا دھند بھاگ رہی تھی ـ شومئی قسمت یہ راستہ ایک پختہ پگڈنڈی کی طرح تھا ـ اسے بھٹکنا یا سمت تلاش کرنی پڑتی تو صورتحال کچھ اور ہوتی وہ کتنابھاگی کچھ اندازہ نہی ـ
لیکن وہ سایہ دار شجر میں آگئی جب وہی مانوس آواز ہاں وہی آواز اسکے مختارے کی آواز اسکے کانوں نے سُنی ـ وہ دیوانہ وار اس طرف بھاگی ـ تو دیکھا کہ کھیتوں کے درمیان وہ بھوک سے بِلک رہا ہے مان کی پیاسی آنکھوں سے شدتِ جزبات سے جو سوتے پھوٹے تو شائد عرش کو بھی ہلا گئے ھوں گے ـ بانہوں کے حلقے میں لے کر اسکو پاگلوں کی طرح چومنے لگی ـ ممتا کے آبِ حیات نے اسکے حلق کو تپتی زمیں میں خود جل کر تر کر دیا ـ پیٹ بھرا تو اسکے خشک ہونٹوں پر وہی پیاری سی فرشتوں جیسی مُسکان آگئی ـ اپنے گمشدہ خزانے کو فخر سے گود میں اٹھائے وہ واپسی کے سفر پر تنِ تنہا چلنے لگی ـ
ایک عجیب سی طاقت کا احساس تھا جیسے اللہ نے دل میں یہ طاقت ور احساس ڈال دیا ہو کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے ـ وہ جو قافلے کے ساتھ نڈھال اور پژ مردہ چال کے ساتھ چل رہی تھی ـ اب ایسے فراٹے بھرتی ہوئی اپنے جگر گوشے کو اٹھائے جا رہی تھی ـ جیسے عام دنوں میں وہ آتی جاتی ہو گاؤں میں دور سے بیلوں کی ٹن ٹن اسکے حوصلے اور بلند کر گئی ـ اور اسکی رفتار اور تیز ھو گئی ـ سر جھکائے اللہ بخش جانے کیا کیا سوچ رہا تھا ـ
رحمتاں کے ساتھ بتائے ہویے وہ تمام لمحے وہ تمام سال ایک ایک کر کے اسکی نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے ـ آنکھیں بھیگ رہی تھیں ـ وقار کی خوشی سے بھرپور چیخ اماں ابا اللہ بخش مڑا تو سامنے اسکو صحیح سلامت دیکھنا ایک معجزہ ہی لگا ـ اور اس سے بھی بڑا معجزہ کہ جب لوگ سامنے اپنوں کو کٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ـ اسکے سب اپنے سلامت اسکے سامنے کھڑے ہیں ـ قافلے والے کو رکنے کو تیار نہیں تھے ـ اللہ بخش کو شکرانے کے نفل ادا کرتے دیکھ وہیں ہر خطرے سے بے پرواہ اسکو رشک اور حیرت سے دیکھنے لگے ـ یہ لوگ خیریت سے پہنچےـ اور ایک نیا آغاز زندگی کا ہوا ـ مختار نے ہوش سنبھالتے ہی ہر خاص و عام سے ممتا کی یہ لازوال کہانی سنی ـ
اسے اپنے اوپر فخر ہوتا کہ اسکی ماں نے اپنی جان اپنی عزت اپنے بچے اس کیلئے چھوڑے اور کیسے تنِ تنہا اسکو کھوج لائی ـ اگر ماں اس وقت قافلے والوں کے سامنے ہار مان لیتی تو؟ مختار یہاں سے آگے سوچنے کی ہمت ہی نہیں رکھتا تھاـ خوفناک کتے جو ان دنوں سکھوں ہندووں کی شکل میں بھی پھر رہے تھے ـ وہ کیسے اسے بھنبھوڑ سکتے تھے ـ یا کوئی کرپان یا کوئی خنجر تب مختار نے قسم کھائی کہ وہ اپنی ماں کی اتنی عزت اتنی قدر کرے گا ـ
کہ دنیا اسکی مثال دے گی سونا پہلے اللہ بخش بنوا کے نہی دے سکا تھاـ مان کی حسرت مختار نے پوری کی وہ لاکھ شور مچاتی رہیں لیکن لاڈلے بیٹے نے اپنی قسم دے کے چُپ کروا دیا باقی بھائی بھی صاحبِ حیثیت تھے لیکن مختار کے بارے میں یہ مشہور ہو گیاـ کہ مٹی کو ہاتھ لگاتا ہے تو سونا بن جاتی ہےـ کیونکہ اسکے ساتھ ماں کی خاص دعا ہے ـ باقی بھائی لڑتے ماں سے تکرار کرتے لیکن رحمتاں بھی شائد جانتی تھیں کہ ایسی قدر اور ایسی عزت اور کوئی نہی کر سکے گا ـ
اس لئے جاتی سب کی طرف لیکن رہتی یہیں تھیں ـ اتنی محویت سے سن رھے تھے کہ آنکھوں سے بہ کر آنے والے آنسووں کا احساس ہی نہی ہوا ـ اسکے بعد تو ہمیں وہ جھریوں بھرا محترم چہرہ بہت ہی عظیم اور پُر نور لگا یہ تو ایک ماں دیکھی اور کہانی سُن لی ـ لیکن نجانے کتنی مائیں اور ہوں گی جنہوں نے ایسے ہی دکھ اٹھائے ہوں گے ـ لیکن شاید وہ رحمتاں بی بی کی طرح خوش نصیب نہ ہوں ـ دیکھئے شائد آس پاس کوئی اور جھریوں بھرا چہرہ ماضی کا بند باب لئے آپکا منتظر ہو اور ممتا کی ایک اچھوتی اور انوکھی کہانی آپکے لئے منتظر ہو ـ