حقیقی جمہوری ترقی

Democracy

Democracy

تحریر: شہزاد حسین بھٹی
اس ملک میں جمہوریت بارے کیا لکھنا ۔ مجھ جیسے بیسیوں کالم نگار دن رات جمہوریت کا راگ الاپتے الاپتے تھک گئے ہیں لیکن جمہوریت ہے کہاں ؟ یہ کسی کو دیکھائی نہیں دیتی ۔یہاں تو جمہوریت کے نام پر انتخاب ہوتا ہے اور جب انتخاب ہو جائے تو پھر کون عوام، کیسے وعدے ۔ کیسے مسائل اورکیسی فلاح و بہبود۔ جب اقتدار ہاتھ میں آتا ہے توایسی آزادی ملتی ہے کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے علاوہ کچھ دیکھائی ہی نہیں دیتا۔ صرف کرپشن اور بدعنوانی کے چراغ کو ہاتھ میں لیے مال و زر کو ضرب دیتے دیتے پانچ سال گذر جاتے ہیں لیکن ہوس اقتدار و مال و زر ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔اور یہ سب حقیتی جمہوریت کے منافی عوامل ہیں۔ بنیادی جمہوریت گائوں ، قصبہ، شہر سے ہوتی ہوئی میڑو سٹی تک پہنچتی ہے۔ اور عوام کو اپنے روز مرة کے مسائل ، تجاویز اور پالیسی کو مقامی سطح پر حل کرنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ ان مسائل ، تجاویز اور پالیسی کی منظوری دینے والے بھی مقامی منتخب لوگ ہوتے ہیںجنہیں انہی عوا م سے واسطہ رہتا ہے۔

گذشتہ دنوں وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اڑتیس ماہ کے اقتدار کے مزے لینے کے بعد خیال آیا ہے کہ آمدہ انتخابات میں صرف بائیس ماہ رہ گئے ہیںلہذا عوام سے جن منصوبوں اور ترقیاتی اسکیموں کے وعدے کئے تھے انہیں جلد از جلد پورا کیا جائے تاکہ اگلے انتخابات میں عوام میں منہ دیکھانے کے قابل ہو جائیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ابھی تک بلدیاتی منتخب نمائیندوں کو اقتدار کی منتقلی کیوں نہیں کی گئی؟مقامی سطح پر خرچ کیے جانے والے فنڈز کو اپنے میگا پراجیکٹس ،ایم این ایز اورایم پی ایز تک محدود کیوں رکھا ہوا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ مقامی سطح پر حقیقی اقتدار کی منتقلی مارشل لاء کے دور حکومت میںہوئی۔ میگا پراجیکٹس کی تکمیل ترجیعی بنیادوں پر انہی آمروںکے دور اقتدار میں ہوئی۔اور بنیادی جمہوریت انہی کے دور اقتدار میں آئی۔کیونکہ انہی ڈکٹیڑوں نے جمہوریت کی جڑوں کو عوا م میں مضبوط کیا، اخیتارات اور فنڈزکو عوامی نمائندوں کے حوالے کیا اورضروری قانون سازی کی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جسکی بدولت جنرل مشرف کے دور اقتدار میں لوگ ناظم اور میئرز کو ناموں سے جانتے تھے۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط کیاگیا۔ ملک میں کاروبار اور ترقی نے عروج پکڑا اور لوگ حقیقی معنوں میں خوشحال دیکھائی دیئے۔

Development

Development

جناب وزیر اعظم صاحب! ترقی سے مراد عمومی مفہوم میں کسی بھی معاشرے میں اسکے رہنے والوں کے معیار زندگی میں ہونے والی بہتری کی ہوتی ہے، جس سے براہ راست ہر فرد کی کیفیت حیات اور راحت الوجودکے درجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ راحت الوجود ، یعنی ایک انسان کا ذہنی اور جسمانی سکون ، وہ بنیادی عنصر ہے کہ جو کسی بھی معاشرے کی انفرادی اکائیوں یعنی اس کے افراد کو مثبت انداز میں متحرک کر سکتا ہے اور ترقی میں نا صرف اضافہ بلکہ اسکا تسلسل بھی قائم رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ راحت الوجود ، عزتِ نفس اور بلا تفریقِ حیثیت و مذہب ، فردی عظمت و وقار کا احساس و تحفظ جب تک کسی معاشرے میں مہیا نا کیا جاسکے گا ، اس کی ترقی کے امکانات تاریک ہی رہیں گے۔ کاروبار زندگی ، گھر اور خاندان کا معاشرے میں کردار اور تجارت و معاشی ترقی جیسے لوازمات کو سائنس میں ترقی کے لیے لازمی قرار دیا جاتا ہے، اور بنیادی طور پر یہ تمام عوامل راحت الوجود اور عزت نفس سے مشروط ہیں ، ان کی ناپیدی سے معاشی و مالی استحکام مفقود ہو جاتا ہے اور سائنس کے لیے درکار بنیادی لوازمات کی فراھمی محدود ہو کر کسی بھی قوم کے زوال کا سبب بن سکتی ہے۔

پروجیکٹ، سڑکیں، پل اور میڑو بنا دینا حقیقی ترقی نہیں ہوتی ۔ حقیقی ترقی عوام کی حالت زار کو بہتر بنانا اور انہیںمعاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور انکے روزگار اور بھوک کے خلاف اقدامات ہوتے ہیں۔ قومیںسٹرکوں اور پلوں سے نہیں پہچانی جاتیں بلکہ عوام کی بنیادی ضرورت بھوک کو مٹانے ،تعلیم اور صحت عامہ کی سہولیات پہنچانے سے پہچانی جاتی ہیں۔ آج اگر میڑو، موٹروے اور پل ہی کو ترقی سمجھا جا رہا ہے تو یہ ترقی تو انگریزوں کے دور میں بھی تھی۔انگریزوں نے چاہے اپنے مفاد میں ہی سہی، پورے بر صغیر میں آسام کے ایک کونے سے لیکر خیبر پختون خواہ کے لنڈی کوتل تک ریلوے لائنوں کا جال بچھا دیا۔

Hawrah Bridge

Hawrah Bridge

انہوں نے 1943ء میں کلکتہ ویسٹ بنگال میں دریائے ہوگالی پر عظیم الشان ہاورہ برج Hawrah Bridge” “بنایا جس پرروزانہ ایک لاکھ گاڑیاں روزانہ جن میں ڈبل ڈیکر بسوں سے لیکر ٹرکوں او ر ہیوی مشینری تک بڑی آسانی سے گذر جاتی ہیں اور تقریباً ڈیڈھ لاکھ پیدل لوگ اس برج کو پار کرتے ہیں ۔ یہ اپنی نوعیت کا دُنیا میں چھٹا پل ہے جبکہ اپنی تعمیر کے وقت یہ دُنیاکا تیسرا بڑا (لمبا)پل تھا۔ریلوے اسٹیشن لاہور اور راولپنڈی بھی انگریزوں نے ہی بنائے۔ہم نے تو ایک انچ بھی ریلوے لائن میں اضافہ نہیںکیا بلکہ کوئلے پر چلنے والے اسٹیم انجن پچاس پیسے فی کلو کے حساب سے خرید کرفائونڈریوں کی نذر کر دیئے۔

جناب وزیراعظم ! میگا پراجیکٹوں ، پلوں ، سٹرکوں ، میڑو اور اورنج لائن ٹرینوں کے بجائے غریبوں کی بھوک مٹانے کے انتظامات کریں۔ لوگوں کو روزگار دیں، گھر دیں ۔ انکے بچوں کو معاشرے کا کار آمد شہری بنانے کے لیے سکولوں میں مفت تعلیم دیں، صحت عامہ کی سہولیات دیں۔ ہسپتالوں کو فنڈ دیں، دل کے ہسپتال بنائیں، ہسپتالوں میں ڈائیلیسسز مشینوں کا انتظام کریں،ادویات کی فراہمی کو ممکن بنائیں تاکہ انسانیت ہسپتالوں کے گندے وارڈوں اور گیلیریوں میں نہ سسکے۔اگر آ پ نے ایک بھی اس ملک میں اچھا ہسپتال بنایا ہوتا تو آپکو برطانیہ میں علاج نہ کروانا پڑتا۔شخصی ترقی پر توجہ دیں معاشرتی ترقی خود بخود وقوع پذیر ہوجائے گی۔اگرآپ واقعی اپنے بقیہ بائیس ماہ کو کار آمد بنانا چاہتے ہیںتو جمہوریت کے گرداب سے باہر آکر حقیقی عوامی مسائل پر توجہ دیں تاکہ جمہوریت کا ثمر اگلے انتخابات میں آپ کا مقدر بن سکے۔

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر: شہزاد حسین بھٹی