واشنگٹن (جیوڈیسک) نائب صدر نے کہا کہ صدر امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلیم منتقل کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ “ایران پر نظر رکھے ہوئے ہے” اور خطے کو غیر مستحکم اور اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے” کی ایرانی کوششوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ بات انھوں نے اتوار کو دیر گئے واشنگٹن میں “امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی” (اے آئی پی اے سی) کے تین روزہ اجلاس کے افتتاح کے موقع پر کہی۔
پینس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے لیے امریکہ کے عزم پر “کوئی سمجھوتہ” نہیں کیا جا سکتا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پائیدار امن کی راہ تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ صدر امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلیم منتقل کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
ایسا کوئی بھی اقدام امن کی کوششوں کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ فلسطینی مشرقی یروشلیم کو دو ریاستی حل کے نتیجے میں بننے والی اپنی ریاست کا دارالحکومت تصور کرتے ہیں۔
امریکی نائب صدر نے ایران کے ساتھ امریکہ اور دیگر پانچ ملکوں کی طرف سے کیے گئے جوہری معاہدے کی ٹرمپ انتظامیہ کی مخالفت کا اعادہ کیا۔
سابق صدر براک اوباما کے دور حکومت میں ایران کے ساتھ ہونے والے عالمی طاقتوں کے معاہدے کے نتیجے میں تہران کو اپا جوہری پروگرام محدود کیے جانے کے عوض اقتصادی پابندیوں سے چھٹکارا حاصل ہوا تھا۔
ٹرمپ شروع ہی سے اس معاہدے کے مخالف رہے ہیں۔
کمیٹی کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب کہ چند دن قبل ہی دونوں جماعتوں پر مشتمل امریکی سینیٹرز نے ایک مسودہ قانون متعارف کروایا تھا جس میں تہران پر اس کے بیلسٹک میزائل تجربات اور دہشت گردی کی مبینہ معاونت کی پاداش میں مزید پابندیاں عائد کرنے کا کہا گیا تھا۔
اتوار کو اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں امریکہ کے لیے اسرائیلی سفیر رون ڈرمر نے ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ اور اسرائیل کے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی توقع کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی وائٹ ہاؤس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تو یہ “ذہنی آہنگی کو ظاہر کرتی تھی۔”
جہاں یہ اجلاس ہو رہا ہے اس کے باہر اسرائیل مخالف گروپ “اِف ناٹ ناؤ” کے سیکڑوں مظاہرین جمع تھے جن میں سے بعض نے جو کتبے اٹھا رکھتے تھے ان پر مغربی کنارے پر اسرائیل کے قبضے کی مذمت کی گئی تھی۔