کوئی قیمتی چیز جب کسی بے وقوف کے ہاتھ میں دے دی جائے اور وہ اسے چلانا تو درکنار دیکھ بھی پہلی بار رہا ہو ، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ چیز برباد نہیں ہو گی تو اور کیا ہوگی ، جبکہ ایسے ہی ملک کا نظام اس شخص کو دے دیا جائے جو سائیکل چلانا بھی نہ جانتا ہو تو اس سے ملک کی تباہی نہ ہوگی تو اور کیا ہوگا۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی امریکی عوام کے لیے کوئی آسمان سے اتر ے عذاب کی طرح ہیں۔ جس کے فیصلوں نے امریکا اور امریکی عوام کے لیے دنیا میں نفرت بڑھانے کے ساتھ امریکا کو تنہاہ کر رہے ہیں۔ چاہے وہ فیصلے شام جنگ کے حوالے سے ہوں یا پھر یروشیلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے، ایسے ہی افغانستان ، پاکستان کے بارے پالیسی اور شمالی کوریا ، ایران ، چین ، روس ، ترکی کے بارے اقتصادی سفارتی پابندیاں ، تجارتی جنگ ، کسی معاہدے سے دست برداری ، یا کسی کے جوہری پروگرام کے بارے اس کا موقف ہو سب معاملات پر ٹرمپ کی طرف سے ہنگامہ خیزی دیکھنے میں آئی۔ جس کا امریکا کو فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہوا ہے ٹرمپ کی جارہانہ پالسی و حکمت عملی سے امریکی معیشت کا پہیہ اب چلنے میں بھاری ہو رہا ہے جس کو قرض سے دھکیل کر آگے بڑھایا جارہا ہے، امریکی حکومت کے ذمے واجب الادا قرضوں کی موجودہ مالیت 210 کھرب ڈالر بنتی ہے، یہی نہیں امریکا کے ان عوامی قرضوں کی مالیت میں ہر سیکنڈ بعد 25 ہزار ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی ریاست کے ذمے اتنے زیادہ قرضوں کو مالیاتی ماہرین ایک بلند و بالا ہمالیہ قرار دیتے ہیں، جس کی بلندی ہر لمحہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جس رفتار سے ان قرضوں کے حجم میں آضافہ ہو رہا ہے ، ماہرین کے نزدیک صرف دو سال بعد ان رقوم کی مجموعی مالیت میں سالانہ ایک ٹریلن یا 1000 ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔
ما ئیکل وولف اور سا بق ایف بی آئی ڈائر یکٹر جیمز کو می نے ٹر مپ کے حوالے سے دونوں نے اپنی اپنی کتاب میں لکھا کہ یہ شخص اخلا ق سے عاری ‘ عادی جھو ٹا ‘ آناپرست ہے۔ ٹر مپ نے جب سے روس کے خلاف سفارتی اور چین کے خلا ف اقتصا دی جنگ کا آغا ز کیا تھا تو تب سے امر یکا کے ساتھ ساتھ خود ٹر مپ کے لئے بھی مشکلات میں آضا فہ ہو گیاتھا۔ چین اور روس نے امر یکا کو جواب دینے کے لئے اپنی حکمت عملی پر کا م شروع کردیا تھا۔ ٹر مپ نے جب ایلمیو نیم اور سٹیل پر ٹیکس عا ئد کیے تو دراصل چین کی ابھرتی ہو ئی معا شی طاقت میں رکا وٹ ڈا لنے کے لئے ایک حکمت عملی تھی۔
لیکن دوسری طر ف چین نے بھی امر یکا کے اس اقدام کا بھر پور جو اب دیا تھا ‘ جس نے ٹیکس کا جواب ٹیکس سے دیا تھا ، امر یکا نے سٹیل پر ٹیکس عا ئد کیا تو بدلے میں چین نے امر یکا سے آنے والے گوشت ‘ سبز یوں‘ پھلوں ‘ اور سویا بین تیل پر ٹیکس لگایا۔ چین کے لوگ خنزیر کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں اور امر یکا میں خنزیر کی فارمنگ دنیا میں سب سے زیادہ ہوتی ہے اور چینی ہر سال دنیا میں خنزیر کے گوشت کی پیداوار کا آدھا حصہ کھا جاتے ہیں۔ چین کے اس ٹیکس کے جواب میں ٹیکس سے امر یکی تاجروں میں کا فی تشویش پا ئی جاتی رہی ہے جس سے امر یکا کازرعی شعبہ متاثر ہوا۔
امر یکہ اور چین کے درمیان صرف گوشت کی تجارت کا حجم 22 ارب ڈالر ہے اور چین کے ٹیکس لگانے کے اقدام سے امر یکا میں اس صنعت سے وابستہ 6 لاکھ افراد متا ثر ہو نے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا ‘ امر یکا جتنی بھی کو شش کر لے وہ چین سے اقتصادی جنگ میں فتح اب حاصل نہیں کر سکتا ‘بلکہ الٹا امر یکا کو اس کا نقصا ن ہو گا ‘ امر یکا کا اس وقت 800 ارب ڈالر کا عالمی خسارہ ہے۔ ٹر مپ نے ما رچ کے آخر میں اپنے مشیروں کے ساتھ خصوصی بات چیت کر تے ہو ئے انکشاف کیا تھا کہ چین سے تجارت میں جو نقصان ہمیں ہو ا ہے اس کی وجہ سے ہماری 60 ہز ار فیکٹر یاں بند ہو گئی ہیں اور لاکھوں افر اد بے روزگار ہو گئے ہیں۔
ٹرمپ کا حالیہ ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے معاہدے سے دستبردار ہونے کا اثر پورپی ممالک اور یورپی یونین پر پڑا ، کیونکہ وہ بھی اس معاہدے میں بطور فریق شامل تھے اور یورپی کمپنیاں ایران کے ساتھ کئی معاہدے کر کے بھاری سرمایہ کاری کر رہی تھیں۔ جبکہ ایلیمونیم اور سٹیل کے ٹیکس پرٹرمپ نے پورپ کو ایک ماہ کی رعایت دی تھی۔ جبکہ موجودہ ایران جوہری معاہدے سے امریکا کی دستبرداری اور ٹیکس کی رعایت ختم ہونے پر یورپ میں کافی تشویش پائی جاتی ہے یورپی ممالک ایران معاہدے سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے ، اب ٹرمپ نے کڑی شرائط پر ایران سے معاہدہ کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ایران کو کسی طور پر قبول نہیں، ادھر امریکہ چین کے ساتھ بھی ٹیکس کی صورت حال پر نیا معاہدہ کرنا چاہتا ہے اور امریکا کی یہ خواہش ہے کہ چین شمالی کوریا کے جوہری پروگرام ختم کرانا میں اپنا موثر کردار ادا کرئے ، ٹرمپ اور کم جونگ کی اس سلسلے میں 12جون کو ہانگ کانگ میں ملاقات ہونی تھی لیکن ٹرمپ اور بولٹن کے بیانات کی وجہ سے منسوخ ہو چکی ہے دوسری طرف شام کی صورت حال پر امر یکا اور اس کے اتحادی برطانیہ ‘ فرانس کے میز ائل حملوں سے عالمی سطح پر امریکا کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ، ادھر روسی خطے میں اپنا اثر رسوخ بڑھا رہا ہے صدر پو ٹن نے ترکی کے دورے کے دوران ایک معا ہد ہ کیا ہے جس روح سے روس ترکی میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے 4 ہز ا ر 800 میگا واٹ کا جو ہر ی پاور پلانٹ لگائے گا۔
چین دن بدن اپنے اقتصادی قدم بڑھانے کے ساتھ دفاعی لحاظ سے بھی اپنی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے چین نے اپنا جنگی بحری بیڑا بھی تیار کر لیا ہے۔ چین افریکا کے بعد اپنا ایک اور فوجی اڈا ‘ اسٹریلیا کے قریب جزیرہ نماہ ملک انا تاو ¿ میں اپنا اڈا قا ئم کر نا چا ہتا ہے چین اسٹر یلیا کے ساتھ تجارت کے راستے کو محفو ظ بنا نے کے لئے یہ حکمت عملی اپنا رہا ہے۔ روس اور چین عالمی بنک کی اجارہ داری سے بھی جان چھڑانا چا ہتے ہیں جو اس کے بدلے برکس بنک کے حوالے سے سرگرمیاں تیز کر رہے ہیں ساتھ ہی شنگھائی تعاون تنظیم کو مضبو ط بنا رہے ہیں ‘اور ڈالر کو زمین پر لانے کے لئے ان ممالک نے سونے کی خریداری تیز کر دی ہے ساتھ ہی کافی سارے ممالک سے تجارت ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں شروع کر دی ہے۔
امریکا کے لئے افغان جنگ اور شام کی صورت حال مزید پریشانی کا سبب ہے اور ایشاءکی طاقتیں امر یکا کو یہاں سے نکا لنے کے لئے اس کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ امریکا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جنہیں اپنی آبادی کے لحاظ سے فی کس بنیادوں پر اوسطاًسب سے زیادہ عوامی قرضوں کا سامنا ہے امریکا کا ایک بڑا حریف ملک چین بن چکا ہے، جو اب کافی برسوں بعد جرمنی اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ خود چین تک نے اتنی زیادہ مالیت کے امریکی ٹریڑری بانڈز خرید رکھے ہیں کہ دیکھا جائے تو امریکا کے وفاقی بجٹ کا کافی زیادہ تر حصہ تو چینی سرمائے سے چلایا جا رہا ہے۔
چین نے امریکی ٹریڑری بانڈز کی شکل میں واشنگٹن کے ذمے جو قرضے خرید رکھے ہیں، ٹریڑری بانڈز کی خریداری کے لیے یورپی کمپنیوں کو بھی قائل کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹریڑری بانڈز کی خریداری میں دلچسپی لیں لیکن حالیہ معاہدے سے دستبرداری اور ٹیکس کی مشروط رعایت سے یورپی کمپنیاں ٹریڑری بانڈز کی خریداری میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔ ان ٹریڑری بانڈز کی مجموعی مالیت 1.2 ٹریلین یا 1200 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس کے علاوہ جرمن سرمایہ کار اداروں اور شخصیات نے بھی امریکا کے قریب 90 ارب ڈالر کے قرضے انہی بانڈز کی شکل میں خرید رکھے ہیں۔ جو مزید خریدنے کے حق میں نہیں ہیں۔
اگر امریکا کے قرض اتارنے کے لیے پوری دنیا کے تمام ارب پتی انسانوں کی دولت کو جمع کیا جائے اور اس دولت سے امریکا کے قرضے واپس کیے جائیں تو پھر بھی ان قرضوں کا نصف بھی ادا نہیں ہو سکے گا۔ دوسری طرف ماہرین یہ بھی کہتے ہیں قرض اتارنے کے لیے اتنی زیادہ رقوم درکار ہوں گی کہ مثال کے طور پر دنیا کا ہر انسان امریکا کو 3 ہزار ڈالر عطیے کے طور پر دیے تو تب امریکہ قرض کے بوجھ سے آزاد ہوگا، لیکن دنیا میں کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو اب امریکا عطیہ دے اور وہی امریکا اس رقم سے مصوم لوگوں کا خون بہاتا رہے۔