امریکہ (جیوڈیسک) امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کی پہلی خواتین اراکین کا اعلان کر دیا ہے۔ ریاست جنوبی کیرولائنا کی گورنر نکی ہیلی کو اقوام متحدہ میں امریکی سفیر جبکہ بیٹسی ڈیوس کو وزیرِ تعلیم نامزد کیا گیا ہے۔
دونوں خواتین ڈونلڈ ٹرمپ کی شدید ناقدین رہ چکی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی ڈور کی ابتدا میں ان کے حریف بین کارسن نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ انھیں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز کیا جائے گا۔
فیس بک پر بین کارسن کا کہنا تھا کہ ‘امریکہ کو عظیم بنانے میں میرے کردار کے بارے میں ایک اہم اعلان آنے والا ہے۔’
منگل کے روز ڈونلڈ ٹرمپ بھی ٹوئٹر پر کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی محکمہ ہاؤسنگ اور شہری ترقی کے لیے بین کارسن کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بدھ کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 20 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد بھی ضروری نہیں کہ وہ اپنے کاروبار سے رابطہ منقطع کر دیں۔
منتخب صدر کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینیٹر نے کہا ہے کہ وہ اس بارے سے ایوان میں ایک قرارداد پیش کرنے جا رہے ہیں۔
سینیٹر کے مطابق مذکورہ قرارداد میں مسٹر ٹرمپ سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ یہ ثابت کرنے کے لیے اپنے تمام اثاثوں سے علیحدہ ہو جائیں کہ وہ اپنی صدارت کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔
مسٹر ٹرمپ نے انٹریو منگل کو دیا تھا اگرچہ امریکی قانون میں ضروری نہیں کہ صدر اپنے کاروباری مفادات سے لا تعلق ہو جائے، تاہم ماضی میں روایت یہی رہی ہے کہ صدر اپنے کاروباری لین دین سے الگ ہو جاتے ہیں۔
اپنے تازہ ترین بیان میں نومنتخب صدر نے انتہائی دائیں بازو کے ان کارکنوں سے بھی لاتعلقی ظاہر کی ہے جنھوں نے رواں ہفتے مسٹر ٹرمپ اور انتخابات میں ان کی فتح کو ہٹلر کے حامیوں کی طرز پر سلام پیش کیا تھا۔
جمعرات کو امریکہ میں تھینکس گِونگ کی سالانہ چھٹی ہے اور منتخب صدر یہ چھٹی گزارنے ریاست فلوریڈا روانہ ہو گئے ہیں۔
گذشتہ دنوں سے ڈونلڈ ٹرمپ اپنی وہ ٹیم منتخب کرنے میں مصروف ہیں جو دورِ صدارت میں وائٹ ہاؤس میں ان کی معاونت کرے گی۔
امریکی فوج کے مشہور جرنیلوں میں سے ایک، جنرل ڈیوڈ پیٹریئس نے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اگر انھیں منتخب کیا گیا تو وہ بخوشی صدر ٹرمپ کی ٹیم میں شامل ہو جائیں گے۔
انٹرویو دیتے ہوئے مسٹر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میں بہترین انداز میں اپنی کاروباری ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی بہترین انداز میں چلا سکتا ہوں۔ میرا خیال تھا اس کے لیے آپ کو کوئی ٹرسٹ وغیرہ بنانا پڑتا ہے، (لیکن) آپ کو اس کی ضرورت نہیں۔‘
تاہم مسٹر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی دونوں ذمہ داریوں سے الگ الگ عہدہ برا ہونے کے لیے کوئی بندوبست کریں گے۔ جہاں تک ڈیموکریٹ سینیٹر بین کارڈن کا تعلق ہے، ان کی خواہش ہے کہ صدر کی سرکاری ذمہ داریاں اور ان کی کاروباری مصروفیات ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ رہیں گی۔
سینیٹر بین کارڈن اس سلسلے میں آئندہ ہفتے ایک قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں منتخب صدر سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ آئین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایسا ٹرسٹ بنائیں جو کاروبار کو ان کے سرکاری عہدے سے الگ رکھے تا کہ ان کے کاروباری مفادات ان کی اپنی سرکاری حیثیت سے نہ ٹکرائیں۔
گذشتہ ہفتے جب مسٹر ٹرمپ نے جاپانی وزیراعظم سے ملاقات کی تو ان کے ساتھ ان کی بیٹی اور داماد بھی موجود تھے
مشہور رسالے ’فوبز‘ کے مطابق مسٹر ٹرمپ پراپرٹی کے کاروبار کی دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ہیں اور ان کی کاروباری جاگیر میں پانچ سو سے زیادہ کمپنیاں شامل ہیں اور مسٹر ٹرمپ کے اثاثوں کی موجودہ مالیت تین اعشاریہ سات ارب ڈالر ہے۔
مسٹر ٹرمپ کی سرکاری حیثیت اور ان کے کاروباری مفادات میں ممکنہ ٹکراؤ کی ایک شکل حال ہی میں واشنگٹن میں تعمیر ہونے والا ’انٹرنیشنل ہوٹل‘ ہو سکتا ہے۔
نامہ نگار کا کہنا ہے کہ جنوری میں مسٹر ٹرمپ کی حلف وفاداری کی تقریب کے سلسلے میں دنیا بھر سے کئی شخصیات واشنگٹن آئیں گی اور ان کے مذکورہ ہوٹل میں قیام کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مالی فائدہ خود صدر کو حاصل ہوگا۔
اس کے علاوہ، چونکہ یہ ہوٹل حکومت کی جانب سے پٹّے پر دی گئی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے، اس لیے جب مسٹر ٹرمپ صدر بن جائیں گے تو وہ راتوں رات اس ہوٹل کے کرائے دار کے ساتھ ساتھ مالک مکان بھی بن جائیں گے۔