برطانیہ (جیوڈیسک) برطانوی سفیر نے خفیہ سرکاری مراسلوں میں ٹرمپ انتظامیہ کو ‘نااہل اور ناکارہ‘ قرار دیا تھا۔ ردعمل میں ٹرمپ نے سفیر کو ایک ’احمق شخص‘ قرار دے دیا۔
بدھ کے روز اپنے استعفے میں برطانوی سفیر سر کم ڈیروک نے کہا، ”موجودہ حالات میں میرے لیے اپنی ذمہ داریاں اپنے انداز سے پوری کرنا ممکن نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ گو کہ ان کی مدت ملازمت اس سال کے آخر تک ہے لیکن ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ نیا سفیر تعینات کیا جائے۔
برطانوی اخبار دی میل آن سنڈے نے اتوار کے روز امریکا میں متعین برطانوی سفیر کی خفیہ سرکاری ای میلز شائع کیں تھیں جن میں انہوں نے صدر ٹرمپ کے انداز حکمرانی پر نکتہ چینی کی تھی۔
ای میلز لیک ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے روایتی انداز میں پیر اور پھر منگل کے روز ٹویٹر پر برطانوی سفیر اور برطانوی وزیراعظم پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی۔
انہوں نے نہ صرف برطانوی سفیر کو برا بھلا کہا بلکہ برطانوی وزیراعظم کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ٹریزا مے نے بریگزٹ مذاکرات سے متعلق ان کے مشورے نظرانداز کرتے ہوئے ‘بیوقوفانہ راستہ اپنایا‘ جس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان ٹوئیٹس کو ‘بے عزتی‘ قرار دیا۔ منگل کے روز اپنے جوابی بیان میں انہوں نے کہا، ”دوستوں سے کھل کر بات کرنی چاہیئے۔ اس لیے میں کہوں گا کہ (صدر ٹرمپ کے) بیانات ہماری وزیراعظم اور میرے ملک کے لیے بے عزتی اور غلط ہیں۔‘‘
برطانیہ اس سے پہلے کہہ چکا ہے کہ سفیر کی ای میلز لیک ہوجانا افسوسناک تھا اور حکومت اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی حکام نے امریکا میں اپنے سفیر کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ بطور سفیر یہ ان کا کام تھا کہ وہ میزبان ملک کی سیاسی صورتحال پر اپنا ایماندارہ تجزیہ اپنی حکومت تک پہنچائیں۔