تحریر : علی عبداللہ دنیا بھر میں مسلمان ہونے کے ناطے آپ کہیں بھی کوئی اسلامی اجتماع منعقد کروالیں یا دعوت و تبلیغ کا کام کریں, آپ مساجد بنائیں اور چندہ اکٹھا کریں یا کوئی دیگر اسلامی شعائر کا مظاہرہ کریں , آپکی طرف کوئی انگلی بھی نہیں اٹھائے گا لیکن جیسے ہی آپ امت مسلمہ کے اتحاد کی بات کریں گے پھر ایک نہ رکنے والا تنقید و تذلیل کا سلسلہ شروع ہو جائے گا _ آپ کو دشمن قرار دے کر آپ کے خلاف ایک جنگ شروع ہو جائے گی _ چونکہ باطل مسلمانوں کو متحدہ مسلم امت کے طور دیکھنا گوارا کر ہی نہیں سکتا لہٰذا جہاں امت مسلمہ متحد ہونے لگتی ہے باطل اپنے پورے سازوسامان سے انہیں مختلف مسائل میں الجھا دیتا ہے _ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب امت ایک اکائی کے طور پر ابھری تب تب باطل زمین بوس ہوا _ جب سے اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کا اعلان ہوا ہے باطل اسے کمزور کرنے میں اپنا پورا زور لگا رہا ہے ۔ کبھی سعودی قطر تنازعہ، کبھی شام و عراق اور یمن میں کشیدگی اور کبھی فلسطین میں اسرائیل گردی ۔ باطل نہیں چاہتا کہ اسلامی ممالک کا اتحاد مضبوط رہے اور امت مسلمہ پھر سے ایک اکائی بنے۔
اسی سلسلے کہ ایک تازہ ترین کڑی ٹرمپ ڈیکلیریشن ہے ۔ ٹرمپ کا یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت اور امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا اعلان مسلم دشمنی کی جانب ایک قدم تو ہے ہی سہی لیکن یہ اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد اور او آئی سی کے منہ پر طمانچے سے کم بھی نہیں ۔ پوری مسلم امت کے طاقتور ترین ممالک جن میں ترکی، سعودی عرب، مصر، پاکستان، قطر، کویت وغیرہ شامل ہیں ہمیشہ سے فلسطین کے معاملے میں لفظی احتجاج تو کرتے چلے آئے ہیں لیکن کوئی قابل ذکر اور مؤثر پالیسی سامنے نہیں لا سکے جو اسرائیل اور فلسطین تنازعے کو کسی موڑ تک لا سکے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ عرب ممالک اور ترکی اسرائیل کے تمام مظالم کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں صیہونیوں سے تعلق رکھے ہوئے ہیں یا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد پوری دنیا میں احتجاج شروع ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم امہ کے بہترین عسکری قوت کے حامل ممالک اس معاملے کو کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہے اور رسمی بیانات دے کر اپنا فرض چکتا سمجھ رہے ہیں ۔ درحقیقت یہ معاملہ نہایت تشویشناک ہے کیونکہ اگر اسرائیل بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنا لے تو پھر فلسطینیوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی اور مستقبل میں شاید فلسطین کا صرف ذکر ہے رہ جائے اور گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے ۔ اسطرح مشرق وسطیٰ میں صیہونیوں کا اثر و رسوخ مزید پھیل کر عرب ممالک کی ثقافت، تجارت اور سیاست پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔
اس اعلان پر جہاں فلسطین اسرائیل حالات مزید کشیدہ ہوئے ہیں وہیں اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں بھی غم و غصے کا اظہار دیکھنے کو ملا ۔اسلامی اتحاد کی سربراہی چونکہ سعودی عرب کر رہا ہے اس لیے زیادہ تر لوگوں کی انگلیاں سعودی عرب اور ابن سعود خاندان پر اٹھ رہی ہیں ۔ اور اس بہانے عرب شاہی خاندان کے تمام سابقہ بادشاہوں کو بھی یہودی ایجنٹ اور ملت فروش کہا جا رہا ہے ۔ گو کہ ابن سلمان کی پالیسیاں روایتی عرب حکمرانوں سے مختلف اور کافی حد تک متنازعہ بھی ہیں لیکن اس بہانے باقی مسلم ممالک کو چھوڑ کر صرف سعودی عرب سے نفرت کا اظہار کرنا اور تمام سابقہ حکمرانوں کو امریکہ اور اسرائیل نواز کہہ دینا نا انصافی اور کم علمی ہو گا ۔ یہاں عرب حکمرانوں کی جانبداری مقصود نہیں بلکہ اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ فلسطین کا معاملہ صرف سعودی عرب کے ذمے نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کا فرض ہے کہ وہ اسرائیل گردی کو مؤثر طریقے سے روکے اور فلسطینیوں کے حقوق واپس دلا کر اسرائیل کی غیر قانونی آباد کاری ملتوی کروائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پورا عالم اسلام امریکہ پر زور دے کہ وہ اپنا فیصلہ فوری طور پر واپس لے کر مسلم امہ کی دل آزاری ختم کرے ۔ اس سلسلے میں عبدالعزیز ابن سعود اور امریکی صدر روزویلٹ کے مابین خطوط اور ملاقات کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ابن سعود فلسطین کے معاملے میں یہودیوں اور امریکہ سے کسی بھی قسم کا تعاون کرنے پر آمادہ نہ تھا اور آخر وقت تک وہ مزاحمت کرتا رہا کہ یہودی فلسطین پر قابض نہ ہو سکیں ۔ اور جو لوگ ابن سعود کو یہودی ایجنٹ اور امریکہ نواز کہتے ہیں ان کے لیے بھی ابن سعود کا یہ رویہ باعث حیرت ہو گا ۔
نومبر 1938 میں ابن سعود نے امریکی صدر روزویلٹ کو لکھا کہ یہودیوں کا فلسطین پر کوئی حق نہیں اور ان کی طرف سے یہ مطالبہ نا انصافی پر مبنی ہے ۔عبد العزیز ابن سعود نے مزید لکھا کہ فلسطین تاریخی طور پر عربوں سے منسلک ہے اور یہ عرب ممالک کے بیچ میں ہے ۔یہودی ماضی میں یہاں مختصر عرصے کے لیے قابض ہوئے اور یہ عرصہ زیادہ تر جنگوں کا باعث بنا رہا ۔ابن سعود نے انتباہ کیا کہ اگر یورپ کے یہودی فلسطین داخل ہوئے تو آسمان پھٹ جائے گا، پہاڑ لرز جائیں گے اور زمین ہل جائے گی ۔ پانچ سال بعد 1943 میں ابن سعود نے روزویلٹ کو ایک اور خط لکھا جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے تعلقات کا تاریخی جائزہ پیش کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ رسول اکرم کے زمانے سے ہی یہودی مسلمانوں کے دشمن رہے ہیں ۔اگر یہودی یہاں داخل ہوئے تو فلسطین خون کا دریا بن جائے گا اور تا ابد مسائل کا سامنا کرتے رہنا پڑے گا ۔
اس خط کے دو سال بعد فروری 1945 میں صدر روزویلٹ اور ابن سعود کی نہر سویز میں ایک امریکی جہاز پر پہلی ملاقات ہوئی جس میں ابن سعود نے پرتعیش انتظامات اور طعام کے علاوہ ایک خطیر امریکی امداد رد کر دی جو کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کروانے میں مدد کے بدلے پیش کی گئی تھی ۔ ابن سعود نے نہ صرف اس امداد کو رد کیا بلکہ انتباہ کیا کہ امریکہ کو عربوں یا یہودیوں میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا اور عرب یہودیوں کو یہ سرزمین دینے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیں گے ۔ اسی سال 5 اپریل کو صدر روزویلٹ نے ابن سعود کو خط لکھا اور یقین دہانی کروائی کہ امریکہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے عربوں کی سلامتی کو خطرہ ہو۔ اس خط کے دو ماہ بعد ہی صدر روزویلٹ کی وفات ہو گئی اور پھر ابن سعود کی تمام جدوجہد ماند پڑ گئی اور آنے والے نئے امریکی حکمرانوں کی بدولت اسے فلسطین کی سرزمین پر خونی فسادات کی اپنی ہی پیشگوئی حقیقت کے روپ میں دیکھنا پڑی ۔ابن سعود کی موت کے وقت تک تمام عالم عرب فلسطین کو کھو چکا تھا اور امریکہ حسب روایت دھوکہ بازی کر کے اسرائیل کی جانب ہاتھ بڑھا چکا تھا ۔
نئے عرب حکمران شاید یہ سب بھول چکے ہیں اور اسرائیل کو اپنا ہمنوا بنانے کی ٹھان چکے ہیں ۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کے حرمین کسی خادم الحرمین کا محتاج نہیں ۔ جب تک یہ نئے حکمران حرمین اور اپنے آباؤ اجداد کی ثقافت اور نظریات پر قائم رہیں گے انہیں عزت ملتی رہے گی لیکن اسے نظر انداز کرنے پر ذلت ان کا مقدر بن سکتی ہے ۔ لہٰذا اس نئے ٹرمپ فیصلے پر عربوں کو تو اہم فیصلے کرنے ہی ہوں گے لیکن پاکستان کے لیے بھی یہ اہم موقع ہے کہ وہ اپنی شناخت امت مسلمہ کے اہم اور طاقتور خیر خواہ کے طور پر کروائے ۔اور پاکستانی عوام کو چاہیے کہ سعودی عرب دشمنی ظاہر کرنے کی بجائے حقیقت پر توجہ دے اور آپس کے اختلافات کو ہوا نہ دے بلکہ متحد ہو کر امریکی فیصلے کا بائیکاٹ کرے ۔ اس سارے معاملے میں امت مسلمہ کا باہمی اتحاد درکار ہے ۔ کسی واحد ملک یا خاندان کو ذمہ دار ٹھہرا کر اختلافات کو ہوا دینا مزید مسائل کا باعث ہو سکتا ہے۔