واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیے جانے کے مشرق وسطیٰ امن عمل پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اتوار کو این بی سی کے پروگرام ‘میٹ دی پریس’ میں گفتگو کرتے ہوئے ٹلرسن کا کہنا تھا کہ “میں سمجھتا ہوں کہ بات چیت میں شامل فریقین کو پھر اس بارے میں مطلع کیا جائے گا۔۔۔ آیا اسرائیل اسے امن عمل کے لیے معاون کے طور پر دیکھتا ہے یا نہیں۔”
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس پر فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کیے جانے سے امن عمل متاثر نہیں ہوگا۔”
ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ “یہ ایک تاریخی غلطی کو درست کرنے کی سمت پیش رفت ہوگی۔”
اسرائیل نے 1967ء میں یروشلم کو اپنا حصہ بنا لیا تھا اور وہ اس پورے علاقے کو اپنا ابدی دارالحکومت قرار دیتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ بین الاقوامی برادی اپنے سفارتخانے یہاں منتقل کرے۔
فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل میں اپنی ریاست کا دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسرائیل کے اتحادی اپنے سفارتخانے یہاں منتقل کرنے سے ہچکچاتے رہے ہیں۔
اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ یہ عزم ظاہر کرتے رہے ہیں کہ وہ امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کر دیں گے لیکن اس ضمن میں ابھی کوئی ٹھوس اقدام دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
ٹرمپ رواں ہفتے ہی بطور امریکی صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر روانہ ہو رہے ہیں جس میں وہ اسرائیل اور فلسطین کے راہنماوں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔