تحریر : شہزاد سلیم عباسی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے لیے جنرل (ر) مشرف ثابت ہوسکتے ہیں، جنہوں نے اپنے آمرانہ طرز عمل سے یہ واضح کیاکہ وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں، شاید ٹرمپ بھی کچھ ایسے ہی مزاج کے مالک واقع ہوں۔خیر ٹرمپ کی بطورصدر جیت سے ہمیں ہر طرف ہنگامے پھوٹتے نظر آئے، دنیا بھر میں ٹرمپ کی پالیسیوں کو انتہا پسند ی اور ہٹ دھرمی کا نام دیا گیا ۔دنیائے تاریخ میں پہلی بار امریکہ کی سرزمین میںلاکھوں لوگ احتجاج کرنے نکلے ۔برطانیہ ، کینڈا اور دوسرے یورپین ممالک نے بھی ٹرمپ کی حماقتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایااور پھرخود امریکہ کی ایجنسیاں، ڈپلومیٹس ، سینیٹرز اور دوسرے سیاستدانوں نے انہیں نیٹو کے ساتھ مسائل پیدا کرنے، میکسیکو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، اقوام متحدہ کو اہمیت نہ دینے ، بھارت اور روس کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب رقم کرنے ، ایگزیکٹو آرڈرکے ذریعے سات مسلم ممالک کی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے ،اسرائیل کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات استوار کراتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کے ذریعے 153 سے زائد گھروں کی تعمیر میں علانیہ حمایت کرنے وغیرہ پر ”ملک دشمن پالیسیاں بنانے والوں کا بادشاہ” قرار دیا ہے۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ایسا کچھ نہیں ہے ،ٹرمپ کو امریکہ کے عوام نے صدر منتخب کیا ہے اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ووٹ لیکر ٹرمپ دنیائے عالم کی سب سے بڑی کرسی پر براجماں ہیں۔اگر کسی کو کوئی فکر دامن گیر ہوتی ہے تو اسے خوابوں اور کم عقلوں کی جنت سے باہر آکر دیکھنا چاہیے کہ ٹرمپ خود سے کوئی فیصلے نہیں کر رہا بلکہ ہر فیصلے میں اپنے تھینک ٹینکس،کابینہ اور یہودی لابی کی اجازت کا محتاج ہے۔علی سبیل المثال ،ماضی کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ سابق صدر اوبامہ نے اپنے آخری ادوار میں مسلم ممالک میں دہشت گردی کے بڑے پیمانے پر پھیلنے اور مسلم کش پالیسیوں کے اشاریے اوربیانیے دے دیے تھے اور آج ٹرمپ نہ صرف ان اشاروںاورکنایوں پرمن وعن عمل کر کے اپنے دیر پا مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے بلکہ آئیندہ چند دنوں میں مسلم ممالک پر مزید پابندیوں کے ذریعے ڈو مور کا مطالبہ متوقع ہے۔
عین ممکن ہے کہ ٹرمپ اسلامی ممالک کے اتحاد کومختلف قرضوں، آئی ایم ایف کی دھمکیوں ، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چند بڑے مسلم ممالک کے انڈرولڈ حکمرانوں کو ساتھ ملاکر مشرق وسطیٰ کو بھی اپنے کنٹرول میں کرے جو شاید دنیا کے نقشے کو یکسر تبدیل کر کے پورے کے پورے کلائی میٹ Climate کو ہی تبدیل کر کے رکھ دے گا۔ جیسے کہ میں اپنے پچھلے چند کالموں میں پی ایس پی کے قائد مصطفی کمال کا ذکر کر چکا ہوں کہ وہ سندھ خصوصا کراچی کی سیاست میں ابھر کر سامنے رہے ہیں۔ اس بار ان کے جلسے میں ایک چیز جو نظر آئی وہ پارٹی کے لیے بڑی خوش آئیند ہے کہ انہیں سندھ کے عوام نے کچھ ”اسپیس ” دے کر سندھ کی تیسری بڑی پارٹی کے طور پر قبول کر لیا ہے۔
Mustafa Kamal
پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین الطاف حسین اور راء کے خلاف بول بول کر خود اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اپنی پارٹی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔انہیں اسپیس ملنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ بھی اپنی پارٹی کو چلانے کے لیے ایم کیو ایم والا لب و لہجہ اور طریقہ واردات استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے جلسے میں لسانیت کو فروغ دے کر اردو بولنے والوں کے لیے الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنے والے اور بچوں کے ہاتھ میں تلوار اور بندوق نہیں بلکہ قلم اور کتاب کا نعرہ لگانے والے مصطفی کمال کو یہ بات اچھے سے سمجھنی چاہیے کہ اپوزیشن کا کردار اور ہوتا ہے اور غیر اپوزیشن کا اور۔ انہیں اگر 2018 میں عوام کی خدمت کے لیے آگے آنا ہے تو طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا کر آنا ہو گا ، عمران خان کی طرح پرانے پاپیوں کو ساتھ جمع کر کے اور نئی بوتل میں پرانا شہد ڈال کر عوام کو دھوکا نہیں جا سکتا ہے اور نہ ہی عوامی خدمت کا فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جنرل (ر)غلام عمر کے بیٹے محمد زبیرعمر(وزیر مملکت ،چیئرمین نجکاری کمیشن )ایک اضافی پورٹ فولیو کے ساتھ سندھ کے بتیسویں گورنر بن گے ہیں۔ آئی بی اے (IBA) سے ایم بی اے کی ڈگر ی حاصل کرنے کے بعدچھے سال تک فنانشل مینجمنٹ پڑھاتے رہے۔نئے گورنر نے26 سال تک ( 1981-2007 ) ، IBMمیں اپنے پروفیشنل کیرئیر کو جاری رکھااورIBM میں چیف فنانشل آفیسر کے طور پر مشرق وسطی / افریقہ ریجن دبئی میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔نئے گورنر حقیقی معنوں میں انتہائی شستہ اور دھیمے مزاج انسان ہیںلیکن کراچی کے گورنر کی حیثیت سے انکا ایکٹو رول ”شو پیس ” سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔چونکہ بزنس اور فنانس کی ٹیچنگ ایک الگ تجربہ ہے ۔کراچی جیسے بڑے شہر اور گنجلک سندھ کے لیے سندھ کا کوئی منجھا ہوا سیاستدان درکار تھا نہ کہ ایسا شخص جسے اپنی ذاتی پارٹی میں بھی کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں رہا۔گورنر عشرت العبادجیسا شخص نئے گھر کا مکین بننا چاہیے تھا جس میں بے پناہ خوابدیدہ صلاحیتیں تھیں، وہ کراچی کی سیاست میں اہم کردار تھے۔ کراچی کی سب سے بڑی پارٹی کے گورنر تھے ، وہ تیر ہ سال تک گورنری کے عہدے پر متمکن رہے،وہ پائے کے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اور کراچی کے حالات اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل پر عمیق نگاہ جمائے ہوئے تھے۔
سندھ میں محمد زبیر کا کردار ایسے ہی نظرآتا ہے جیسے صدر مملکت ممنو ن حسین کاایوان صدر میں ۔سائیں مراد علی شاہ کے ہوتے ہوئے اورپانامہ اور اگلے الیکشن کی تیاری کے تناظر میں انکا کردار صفر نظر آتا ہے۔ہاں اپیکس کمیٹی میں انہیں بات کرنے یا بیٹھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ ایسی صورتحال کہ جس میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) ملٹری کورٹس کی ایکسٹینشن کے لیے تیار نہیں وہاں فوج، رینجرز، پولیس ، سیاسی و مذہبی پارٹیوں اور وفاق میں ”کوارڈی نیشن ‘ استوار رکھناانتہائی ضروری امر ہے۔ بہرحال سندھ کی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہے گی کہ سیاست میں کل کا نوجوان سیاست کے بادشاہوں کو سیاسی، مالی و انتظامی معاملات میںمشورے دے۔بہرصورت گورنر سندھ محمد زیبر کو اب ثابت کرنا ہے کہ وہ کتنے پروفیشنل اور دوراندیش ہیں ، اس لیے انہیں سندھ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی ساتھ لیکر چلنا ہو گااور وزیراعظم کے اعتماد پر بھی پر اترنا ہوگا۔