واشنگٹن (جیوڈیسک) اپنی سیاسی مہم میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے کافی سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ پاکستان اور چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدارتی امیدوار انہوں نے کہا تھا کہ ’ یہ ہمارے دوست نہیں اور ہمیں ان سے اپنی سوچ کے برعکس غالباَ مختلف طریقے سے معاملات طے کرنے ہوں گے‘۔
لیکن صدر منتخب ہونے کے بعد ان کے نظریات کافی بدلے ہوئے لگتے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے مبارک باد کی ٹیلیفون کال کے دوران ٹرمپ نے انھیں ’ بہترین ‘ اور ’ اچھی ساکھ ‘ والی شخصیت کہا جو ’حیران کن‘ کام کر رہے ہیں۔
پاکستان ایک جوہری طاقت کا حامل امریکی حلیف ملک ہے جسے پچھلی دو دہائیوں میں اربوں ڈالر کی امریکی امداد بھی ملی ہے۔ لیکن صدر أوباما کے دور حکومت میں ان تعلقات میں کشیدگی آئی جب کہ واشنگٹن کے تعلقات پاکستان کے حریف ملک بھارت سے زیادہ قریبی ہو گئے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے لیے یہ مایوسی کی بات ہے کہ مالی امداد اور فوج کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کے باوجود پاکستان ان دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ بنا ہوا ہے جو امریکہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔
ایک ایسے خطے میں جہاں ملکوں کے درمیان پرانی رقابت پائی جاتی ہے، امریکی نو منتخب صدر کا اس طرح کا بیان شاید امریکہ کی حکمت عملی میں تبدیلی کے طور پر سمجھا جائے۔
جبکہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابقہ تجزیہ کار اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک مارون وائن بام کہتے ہیں کہ ’ اس سے شاید وہ بلا جواز ایسے مطلب نکال لیں جس سے بعد میں انھیں مایوسی ہو‘۔
گزشتہ بدھ کو ڈونلڈ ٹرمپ اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی گفتگو کے متن کے مطابق ٹرمپ نے پاکستانی لوگوں کو’ نہایت سمجھدار‘ قرار دیا اور پاکستان کو ایسا ملک قرار دیا جس کے پاس ’غیر معمولی مواقع ‘ ہیں۔
اور جب پاکستانی وزیر اعظم نے منتخب امریکی صدر کو پاکستان آنے کی دعوت دی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ وہ زبردست لوگوں کے زبردست ملک ‘ میں ضرور آنا چاہیں گے‘۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی بھارت میں کاروباری دلچسبی کی وجہ سے پاکستان کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ بھی صدر أوباما انتظامیہ کی بھارت نواز حکمت عملی کو جاری رکھیں گے۔
دوسری طرف بھارت میں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی پاکستانی وزیر اعظم کو یہ پیشکش کہ’ وہ اہم مسائل کے حل کے لیے کوئی بھی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں‘ کا مطلب پاکستان اور بھارت کے درمیان دہائیوں پرانی کشیدگی ہے۔ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ لیکن جہاں پاکستان بین الاقوامی ثالثی پر زور دیتا ہے، بھارت کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔
کوگل مین کا کہنا ہے کہ ’نو منتخب امریکی صدر کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم کو یہ پیشکش بھارت میں خطرے کی ایک گھنٹی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے جہاں پہلے ہی یہ فکر پائی جاتی ہےکہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات زیادہ مضبوط ہیں‘۔
جبکہ وائن بام کہتے ہیں کہ افغانستان میں بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں پیش رفت کو منفی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ ابتدائی رابطوں کی نوعیت اور حیثیت محض ابتدائی ہوتی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ وہ بعد میں ہونے والی امکانی بات چیت میں کسی مخصوص تبدیلی کی سمت اشارہ کرتے ہوں۔