واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ کے پینتالیسویں صدر کے طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے ایک رات قبل، روسیوں اور غیرملکیوں کے ایک گروپ نے وسطی ماسکو کے ایک بار میں جشن منایا۔
کھانے، مشروب اور موسیقی کی محفل جما کر، چند شرکا نے ٹرمپ کی تعریف میں گانے گائے۔ روسی گلوکار، ولی ٹوکاریف نے ایک البم تقسیم کیا جس کا عنوان ’’ٹرمپ کا امریکہ‘‘ تھا۔ بقول اُن کے، ’’ٹرمپ کمال کے انسان ہیں۔ ٹرمپ سُوپرمین ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ٹرمپ امریکہ کی علامت ہیں۔ ٹرمپ واقعی صدر ہیں‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ زیادہ تر روسی توقع کرتے ہیں کہ ٹرمپ کے دور میں روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی، حالانکہ یہ توقعات کچھ قدر کم ہوئی ہیں، چونکہ نومبر کے انتخاب میں اُن کی جیت پر جو خوشی کی لہر اٹھی تھی، اُس میں کچھ کمی آئی ہے۔
کتایا بدیوا، شعبہٴ زراعت کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اُن کے الفاظ میں، ’’مجھے امید ہے کہ ہم دوست بن جائیں گے، اور مجھے توقع ہے کہ ہمارے دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے‘‘۔ اُن کے ایک دوست نے اُنھیں ’ٹرمپ کی جشن پارٹی‘ میں مدعو کیا۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ’’یہ معاملہ ناقابل پیش گوئی ہے۔ میرے خیال میں کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہوگا۔ دیکھتے ہیں۔ اچھے کی توقع رکھنی چاہیئے‘‘۔
ایسے میں جب کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی صدارت امریکی سیاست میں ایک انقلاب کی سی حیثیت رکھتی ہے، تاہم، روس سے متعلق اُن کی پالیسی کے بارے میں زیادہ نہیں معلوم آیا وہ روس یا صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ کس طرح سے پیش آئیں گے۔
کریملن کے سابق مشیر، گلیب پولوسکی نے دسمبر میں ’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’جو وہ کرنے والے ہیں وہ ابھی غیر واضح ہے، اور شاید خود وہ بھی غیر واضح ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’اس ضمن میں، وہ پیوٹن سے مشابہ ہیں؛ لیکن پیوٹن تو غیر یقینی کی علامت ہیں؛ جو اُن کی پالیسی کا ایک خاصہ ہے۔ یہ واضح نہیں آیا اُس وقت کیا ہوگا جب غیریقینی پر عمل پیرا رہنما نئے انقلابی سے ملتا ہے۔ تاہم، یہ بات ظاہر ہے کہ کسی ممکنہ سنجیدہ سمجھوتے کے لیے روس کے پاس کوئی گنجائش نہیں‘‘۔