تحریر : محمد صدیق پرہار میڈیا رپورٹس کے مطابق بحیثیت کمانڈر انچیف امریکی قوم سے اپنے پہلے رسمی خطاب میں ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا۔اس نے کہا کہ ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔
امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے اس نے کہا کہ پاکستان کے اس رویے کوتبدیل ہوناچاہیے اوربہت جلدتبدیل ہوناچاہیے۔ پاکستان سے نمٹنے کے لیے اپنی سوچ تبدیل کررہے ہیں۔جنوبی ایشیاء میں اب امریکی پالیسی کافی حدتک بدل جائے گی۔امریکی صدرنے اپنے خطاب میں ایک طرف پاکستانی عوام کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوںسراہا تودوسری جانب یہ بھی کہا کہ پاکستان اربوں ڈالرلینے کے باوجوددہشت گردوںکوپناہ دے رہا ہے۔پاکستان اوربھارت دوایٹمی طاقتیں ہیں ایٹمی ہتھیاردہشت گردوں کے ہاتھ نہیںلگنے دیناچاہتے۔تاہم پاکستان اورافغانستان میںہمارے مقاصدواضح ہیں۔اس لیے پاکستان اورافغانستان ہماری ترجیح ہوں گے۔
امریکہ افغان عوام کے ساتھ مل کرکام کرے گااس لیے افغانستان کواپنے مستقبل کاتعین خودکرناہوگا۔اس نے دہشت گردوںخبردارکرتے ہوئے کہا کہ قاتل سن لیں امریکی اسلحے سے بچنے کے لیے جگہ نہیںملے گی اوردہشت گردی کے علمبرداروںکودنیامیں کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ اس لیے افغانستان کوہرزاویے سے دیکھ کرحکمت عملی تیارکی۔ ہم کسی نہ کسی طرح مسائل کاحل نکالیں گے اوردہشت گردی بڑھانے والوںپرمعاشی پابندیاں لگائیں گے اوریقین ہے نیٹوبھی ہماری طرح افواج بڑھائے گا۔مجھے بھی اپنی عوام کی طرح افغان جنگ میں طوالت پرپریشانی ہے۔امریکی صدرنے نائن الیون کاذکرکرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کوکوئی نہیں بھول سکتا۔یہ حملے بدترین دہشت گردی ہیں۔ان کی منصوبہ بندی اورعملدرآمدافغانستان سے ہوا۔تاہم امریکہ کوبیرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے متحدہوناپڑے گااوردہشت گردی کے خلاف ساتھ دینے والے ہرملک سے اتحادکریں گے۔اتحادیوں سے مل کرمشترکہ مفادات کاتحفظ کریں گے۔
دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن کہتاہے کہ پاکستان پردبائوافغانستان میں آپریشن کی رفتاربڑھانے سے سیاسی حل نکالنے میںمددمل سکتی ہے۔طالبان کے پاس جنگ ختم کرنے کاراستہ امن اورمذاکرات پرمبنی سیاسی حل ہے۔اس نے اپنے بیان میںکہا کہ خطے میںامن واستحکام کویقینی بنانے کے لیے بھارت اہم کرداراداکرے گا۔افغانستان میں سیاسی اورمعاشی جدت میں بھارت کے تعاون کاخیرمقدم کریں گے۔افغان حکومت اورطالبان کے درمیان امن مذاکرات میں تعاون کے لیے تیارہیں۔پاکستان میں تعینات امریکی سفیرنے دفترخارجہ میں ملاقات کرکے وزیرخارجہ خواجہ آصف کوامریکی صدرٹرمپ کی جنوبی ایشیاء ، پاکستان اورافغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی سے آگاہ کیا۔وزیرخارجہ خواجہ آصف کاکہناتھا کہ پاکستان کی قربانیوںکوعالمی برادری تسلیم کرتی ہے۔جبکہ پاکستان میںکسی دہشت گردگروہ کامنظم نیٹ ورک موجودنہیں۔پاکستان نے دہشت گردوںکے خلاف بلاتفریق کارروائی کی اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں سوارب ڈالرسے زائدکے وسائل استعمال ہوئے۔افغانستان کے حوالے سے بھارت کاکردارہمیشہ منفی رہاہے۔امریکی سفیرنے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی سے متعلق بریف کیاتاہم پاکستان نے اس حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کردیاہے جبکہ امریکی سفیرکوبتایا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سترہزارجانوںکی قربانی دی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے امریکی صدرٹرمپ کی جانب سے افغانستان کے لیے اعلان کردہ نئی افغان پالیسی پرردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پررہا، عظیم قربانیاں اورتعاون پیش کیا۔عالمی برادری کوپاکستان کی انسداددہشت گردی کی کومکمل طورپرتسلیم کرناچاہیے۔خطے میں عالمی امن واستحکام کے لیے امریکہ اورپاکستان کے تعاون پرچین مطمئن ہے۔جبکہ انہوںنے امیدظاہرکی کہ امریکہ کی پالیسیاں خطے اورافغانستان کے استحکام اورترقی کے لیے ہوںگی۔چینی وزارت خارجہ نے واضح کیاکہ چین اورپاکستان قریبی دوست ہیں جن کے درمیان قریبی سفارتی، اقتصادی اورسیکیورٹی تعلقات ہیں۔ان کاکہناتھا کہ امریکی صدرٹرمپ کی جانب سے پاکستان پرکڑی تنقیدبلاجوازہے۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میںہراول محاذپرڈٹاہواہے۔عالمی برادری پاکستان کی قربانیوںکامکمل اعتراف کرے۔
آئی ایس پی آرمیںافغان صحافیوںکوبریفنگ دیتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف غفورنے پاکستان پردہشت گردوںکی حمایت کاالزام مستردکرتے ہوئے کہاہے کہ اگرپاکستان دہشت گردوںکی حمایت کرتاتوپھردہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ٧٣ہزارشہریوں اورسیکیورٹی اہلکاروںکی جان کیوںلی جاتی۔امریکی فوجی افسران اوراہلکاروں کوحالیہ دورہ پاکستان کے دوران حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کے شواہدفراہم کیے گئے تھے۔افغانستان اورپاکستان مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کاحل ڈھونڈسکتے ہیں۔ سرحدی میکنزم کامقصدصرف اورصرف دہشت گردوںکودونوںممالک میںداخل ہونے سے روکناہے۔افغانستان کواس پرتحفظات ہیںن توہمیں بتایاجائے کہ تیسراراستہ کون ساہے جس سے غیرقانونی آمدوروفت روکی جاسکے۔افغانستان رضامندہوتوپاکستانی سائیڈ کی طرح افغان سائیڈپربھی باڑاورقلعے لگانے کوتیارہیں۔بھارت ٹی ٹی پی کوپاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ان کاکہناتھا کہ ہمیں منفی چیزوںکی بجائے مثبت چیزوںپرتوجہ دینی چاہیے۔میںنے کبھی بحیثیت فوجی ترجمان افغان فوج یاافغان حکومت کے خلاف بیان نہیںد یا۔میڈیاکودونوںممالک کے درمیان پل کاکرداراداکرناچاہیے۔افغان صحافیوںکومخاطب کرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ پاکستان جہاں بھی جاناچاہتے ہیں ہم آپ کولے جانے کے لیے تیارہیںتاکہ آپ خودہرچیزدیکھ سکیں۔لیکن وہ افغانستان جاکرلوگوںکوضروربتائیں سرحدیں بندکرنا اچھااقدام نہ ہی مسائل کاحل ہے ایسے فیصلوںسے پاکستان کوبھی نقصان ہوتا ہے۔
سابق صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کی قربانیاں امریکیوںسے کہیںزیادہ ہیں۔ٹرمپ ہمیں دھمکیاںنہ دیں ٹرمپ کوجنگ کرنی ہے توافغانستان میںکریں۔سابق صدرآصف زرداری نے کہا ہے کہ ہم مسلمان بھی ہیں اورپاکستانی بھی ہیں۔عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی الزام تراشی کی نئی قسط پاکستان کے لیے ناقابل فراموش سبق ہے۔امریکہ کی نئی افغان پالیسی کومستردکرتے ہیں۔محض ڈالروں کے لیے پرائی جنگ کواپنے آنگن میںنہیںلاناچاہیے بھارت کشمیرمیںسراٹھاتی مزاحمت اورامریکہ اپنی ناکامیوںکابوجھ پاکستان پرڈالنے میںکوشاںہیں۔بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ صرف پیپلزپارٹی ہی امریکی صدرکی آنکھوںمیںآنکھیںڈال کربات کرسکتی ہے۔آصف زرداری نے کبھی امریکی دبائوقبول نہیںکیا۔انہوںنے امریکیوںکی سلالہ ایئربیس سے موجودگی کوختم کیا۔گورنرپنجاب ملک محمدرفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی نظریاتی اورجغرافیاتی سرحدوںکی حفاظت ہم سب کی اولین اوراجمتاعی ذمہ داری ہے۔ملک کے بیس کروڑعوام وطن عزیزکی سا لمیت اورحرمت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی حیثیت رکھتے ہیں۔سینیٹرعبدالرحمان ملک نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ساٹھ ہزارجانیںدیں ٹرمپ پالیسیوںپرنظرثانی کرے۔امریکہ نے ہی جہادی تنظیموںکوبنایااورافغانستان کوجنگی زون میںتبدیل کیا۔
ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ نئی افغان پالیسی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ خوداعتراف کررہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کوشکست دینے میںناکام ہوچکا ہے۔وہ اپنی ناکامیوںکاملبہ پاکستان پرڈال کراپنی ساکھ بچاناچاہتا ہے۔اس کاکہنا ہے کہ پاکستان نے اربوںڈالرلینے کے باوجوددہشت گردوںکوپناہ دے رکھی ہے۔ وہ کہناچاہتا ہے کہ ہم نے پاکستان کواربوںڈالردہشت گردوںکے خلاف کارروائی کے لیے دیے پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیںپناہ دے رکھی ہے۔جبکہ حقیقت تویہ ہے دہشت گردی کے خلاف اس طویل جنگ میں پاکستان کاجتنانقصان ہوا ہے امریکی امداداس کے مقابلے میںآٹے میںنمک کے برابربھی نہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کی قربانیوں کونظراندازاورپاکستان سے پھرڈومورکامطالبہ کرکے امریکہ نے ایک بارپھریہ بتادیا ہے کہ وہ صرف اپنے مفادکوہی ترجیح دیتاہے ۔چاہے کوئی جتنی ہی قربانیاں دے ڈالے جب تک امریکہ کے مفادات حاصل نہیںہوتے اس وقت تک امریکہ کے لیے ان قربانیوںکی کوئی اہمیت نہیں۔امریکی صدرنے یہ کہہ کرکہ پاکستان اوربھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اورہم ایٹمی ہتھیاروںکودہشت گردوںکے ہاتھ نہیں لگنے دیناچاہتے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروںکے ایک بارپھرغیرمحفوظ ہونے کاشوشہ چھوڑاہے۔ اس طرح کاایک شوشہ اس سے پہلے بھی چھوڑاجاچکا ہے۔ جب روزانہ کی بنیادپرکہاجاتاتھا کہ دہشت گرد ایٹمی ہتھیاروںکے اتنے قریب پہنچ چکے ہیں۔
اب ایٹمی ہتھیاروں اوردہشت گردوں کے درمیان اتنافاصلہ رہ گیا ہے۔پاکستان کے ایٹمی ہتھیارنہ اس وقت غیرمحفوظ تھے اورنہ ہی اب غیرمحفوظ ہیں۔امریکی صدرنے پاکستان کورویہ بہت جلدتبدیل کرنے کوکہاہے۔راقم الحروف کے فہم وادراک کے مطابق رویہ تبدیل کرنے سے مرادیہ ہوسکتاہے کہ پاکستان افغان سرحدپرسرحدی میکنزم کے تحت کیے گئے اقدامات ختم کرے۔کیونکہ یہی وہ اقدام ہے جس سے پاکستان میں دہشت گردوںکی آمدورفت رک جائے گی۔جبکہ امریکہ نہیں چاہتاکہ پاکستان میںدہشت گردوںکاداخلہ بندہوجائے۔ اس کے علاوہ امریکی صدرنے پاکستان سے نمٹنے کے لیے اپنی سوچ میں تبدیلی کااعلان کیا ہے۔پاکستان سے نمٹنے کی دھمکی دے کرامریکی صدرنے پاکستانی افواج اورعوام کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کو نظراندازکردیاہے۔رویہ پاکستان کونہیںامریکہ کوتبدیل کرناچاہیے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کی کامیابیوںکی تعریف کرنے کی بجائے الٹادہشت گردوںکوپناہ دینے کاالزام عائدکرنا اس بات کانماںثبوت ہے کہ رویہ پاکستان کونہیں امریکہ کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔دھمکی بھی پاکستان کودی جارہی ہے اوررویہ بھی پاکستان کوتبدیل کرنے کاکہاجارہا ہے۔امریکہ کویہ پتہ ہوناچاہیے کہ پاکستان افغانستان یاعراق نہیں۔امریکہ کواپنے ایٹمی ہتھیاروںپرگھمنڈہے تواللہ کے فضل وکرم اورخصوصی عطاء سے پاکستان کے پاس بھی دنیاکاجدیدترین اسلحہ موجودہے۔ٹرمپ نے یہ کہہ کردہشت گردی بڑھانے والوںپرمعاشی پابندیاںلگائیں گے۔پاکستان کے خلاف ایک بارپھراقتصادی پابندیاںلگانے کی دھمکی دے دی ہے۔اب پاکستان پرمعاشی پابندیاں لگانے سے پاکستان پرکوئی اثرنہیںپڑے گا۔
پاکستان کی معیشت اب امریکہ کے مرہون منت نہیں رہی۔ ٹرمپ کواس کی دھمکیوں اورپاکستان بارے زبان درازی کرنے کاجواب دینے کے لیے آل پارٹیزکانفرنس بلائی جانی چاہیے۔ جس میں پاکستان کی تمام سیاسی اورمذہبی جماعتوںکومدعوکیاجائے۔تما م سیاسی اورمذہبی جماعتیں بیک زبان ہوکرامریکہ کوجواب دیں کہ ملک کی سا لمیت اوردفاع کے لیے ہم سب سیسہ پلائی ہوئی دیوارہیں۔ٹرمپ کی پاکستان کودھمکیوںکامعاملہ عالمی سطح پربھی اٹھاناچاہیے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کااجلاس بھی قریب ہے اس اجلاس میں بھی پاکستان یہ معاملہ اٹھائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میںہزاروں قربانیوں اوراربوں ڈالرکامعاشی نقصان اٹھانے کے باوجودٹرمپ کاپاکستان پرالزام تراشی کرنااوردھمکیاںدیناخطے میں امن کی کوششوں اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میںکامیابیوں کوروکنے کی کوشش ہے۔جوکسی بھی طرح دنیاکے امن کے لیے موزوں نہیں ہے۔