ایسے وقت میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں جب کہ ان کے ملک میں ایک ہفتہ پہلے ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا ہے جس یں پچاس مسلمان شہید ہوئے تھے دنیائے اسلام میں ان شہادتوں کو صلیبی جنگوں سے جورا جا رہا تھا لیکن جیسینڈا نے اپنی قوم کی بہترین قیادت کی شعلے اگلتے ہوئے الفاظ ٹھنڈے ہو گئے اس نے اس کی قوم کے ہر فرد نے ٹیرینٹ کا نام لینا ہی گوارا نہیں کیا کیا خوب کہا وزیر اعظم نے کہ وہ گمنام رہے گا اس کا نام کبھی نہیں لیا جائے گا جب کہ یہ شہید زندہ رہیں گے ۔دنیائے اسلم خوش ہو گیا لوگوں نے اپنے غصے کو جیسنڈا اڈرن کی بہترین پالیسی کے نتیجے میں طاق پر رکھ دیا۔
ادھر نیوزی لینڈ اپنی اسمبلیوں میں تلاوت کرا رہا تھا لوگ سرکاری ٹیلی ویزن پر جمعے کی ازان اور خطبہ سن رہے تھے ایسے میں امریکی صدر نے نفرت انگیز پیغام دے کر لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ٥٢ سال بعد اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کا گولان ہائیٹس پر قبضہ قانونی قرار دیا جائے ۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا ہے کہ یہ پہاڑ اس لئے ضروری ہیں کہ اس سے اسرائیل کی ریاست محفوظ رہے گی۔گویا کوئی بھی کیا ہوا ظلم اور کوئی بھی کی گئی زیادتی اس لئے تسلیم کر لی جائے کہ یہ کسی خاص گروہ کے فائدے میں ہے۔گولان کی پہاڑیاں ١٩٦٧ کی جنگ میں اسرائیل نے قبضے میں لے لی تھیں۔شام گزشتہ نصف صدی سے اپنا حق مانگتے مانگتے خود جل کے راکھ ہو گیا ہے لیکن اسے یہ علاقے واپس نہیں ملے۔
ادھر پاکستان میں ملائیشیا کے کے دورے پر آئے ہوئے وزیر اعظم کی یہ بات بھی من کو بھاتی ہے کہ کسی کو یہودیوں سے نفرت نہیں ہے لیکن اسرائیل سے دلی طور پر نفرت اس لئے ہے کہ وہ لوگوں کو جبرا اپنے گھروں سے بے گھر کرتا ہے ظلم و ستم کرتا ہے۔
یہاں پاکستان میں پچھلے دنو کچھ حلقوں سے بات گردش میں آئی کہ اسرائیل کو کیوں نہ تسلیم کر لیا جائے اس میں کچھ وہ لوگ بھی شامل تھے جن کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پاکستان کے مقتتدر حلقوں کی آواز سمجھی جاتی ہے۔ایک صاحب جو ہر چینیل پر موجود ہوتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے تجارت کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔اللہ کا شکر ہے گزشتہ ماہ کی جھڑپوں میں جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ بھارت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی قوت بھی پاکستان سے بر سر پیکار تھی تو یہ آواز دبی ورنہ لگ رہا تھا کہ کہ اب ایک ایسی مہم چلائی جائے گی جو بالآخر اسرائیل کو تسلیم کرا کے دم لے گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر لکھا گیا ہے کہ یہ وثیقہ اسرائیل کے علاوہ دنیا بھر کے لئے کار آمد ہے۔مملکت خداداد پاکستان کے بانی حضرت قائد اعظم سے لے کر موجودہ وزیر اعظم تک جتنے بھی حکمران گزرے ہیں انہوں نے ان الفاظ کی لاج رکھی ہے۔پھر کون سی آفت آئی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مروڑ اٹھا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ لگتا ہے اس دنیا میں آگ کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں ۔وہ ٥٢ سالہ ناجائز قبضے کو جائز قرار دینے کی پخ لے کر میدان میں آئے ہیں تو اس سے وہ امن کی نفی کرنے کودے ہیں۔مشرق وسطی پہلے ہی آگ اور خون کی ہولی میں مبتلاء ہے ایک جھوٹی اور من گھڑت لڑائی کی ابتداء جو دو ناکارہ اور نکمی عمارتوں کو گرا کر شروع کی گئی جس کے نتیجے میں شام و عراق افغانستان و لیبیا سب کا سوا ستیا ناس کر دیا گیا۔میں ان چند سر پھروں میں شامل ہوں جو نہ ہو لو کاسٹ پر یقین رکھتا ہے نہ ٹونٹاورز کے گرنے کو کسی مسلمان کی سازش قرار دیتا ہے اور نہ ہی ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خاتمے کو مانتا ہے۔کوئی مانے یا مانے یہ طریقے بہت پرانے ہیں جھوٹ گھڑا جاتا ہے پھر اس پر قائم رہا جاتا ہے اور اسے اتنا بولا جاتا ہے کہ سب کو سچ ماننا پڑتا ہے۔اور ان کے علاوہ میں ملالہ یوسف زئی کو دنیا کا لیڈر بنائے جانے کے عمل کو بھی سازش سمجھتا ہوں ۔دیکھ یجئے جس دن ملالہ پر حملہ ہوتا ہے اسی دن اقوام متحدہ امریکی صدر اور تو اور میڈونا بھی میدان عمل میں اترتی ہے ملالہ کو افسانوی کردار مین ڈھالا گیا ابھی آگے دیکھئے اس سے کیا کام لیا جاتا ہے۔
خلیج کی جنگ میں جو کچھ ہوا وہ بھی دنیا کے سامنے ہے۔پہلے صدام کو امریکی سفیر کہتا ہے کویت پر قبضہ کرو پھر اس کے بعد کویت کی حکومت کی بحالی کے لئے جنگ شروع کی جاتی ہے وہی صدام جو امریکی آلہ کار تھا وہ ولن بن گیا کویت کو لوٹ لیا گیا سعودی عرب نے جنگ کے اخراجات برداشت کئے سعودیہ کو کھوکھلا اس کے شہزادوں کی کرپشن نے نہیں دنیا کے بڑے ملک نے کھنگالا۔چلئے آپ کو دلچسپ واقعہ سناتے ہیں میں ان دنوں میٹسوبیشی کمپنی جدہ میں کام کرتا تھا ہمیں کہا گیا کہ آپ نے چار سو کے قریب آف روڈز تیار کرنی ہیں پاجیرو جیپوں کا یہ بڑا آرڈر جاپان سے آیا ہم نے ان کی ابتدائی چیک اپس وغیرہ کرنے شروع کر دئے مجھے حیرانگی ہوئی کہ یہ گاڑیاں خفجی بارڈر پر ایک متعین تاریخ کو پہنچانی ہیں ۔کویت عراق لڑائی جاری تھی جدہ شہر خالی تھا سعودی اور بہت سے لوگ ملک خالی کر چکے تھے ہم جیسے لوگ رہ گئے تھے۔اس وقت چینیلز کم تھے ڈشیں بھی بہت کم تھیں ۔ریڈیو اور سعودی ٹی وی پر خبریں اسنا کرتے تھے۔یقین کیجئے جس دن یہ جیپیں کویت بارڈر پہنچیں اس کے اگلے دو تین دنوں میں کویت آزاد ہو گیا۔اس کا کیا مطلب تھا یہ سب چیزیں پلان میں تھیں دنیا اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے کچھ لوگ تہذیبوں کے ٹکرائو کو دیکھ رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوںنے اپنے عمل سے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایسے میں جناب ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار ولن کا ہے۔وہ شام میں رہی سہی کسر بھی نکال دینا چاہتے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ اسرائیل کو عبوں کے سینے میں مونگ دلنے کے قبیح عمل کو تقویت ملے۔جس چیز کا مجھے ڈر ہے وہ ترکی کا اپنی کھوئی ہوئی طاقت ،اپنی خلافت کی بحالی کی خواہش ہے۔ترک صدر طیب اردغان کو آسان نہ سمجھا جائے وہ اب مرد بیمار نہیں ہے اس نے مصطفی کمال پاشا کے سیکولر ازم کو آبنائے باسفورس میں دفن کر دیا ہے ترکی ایک ماڈرن لبرل اسلامی ملک ہے جو ٹیکنالوجی میں بھی آگے ہے اور اس نے صدارتی نظام سے طاقت ایک شخص کے ہاتھ دے دی ہے۔گولن تحریک کو کچلنے کے بعد طیب اردغان ایک نئی چیز ہے۔بغاوت کے دوران اس نے اپنے احداف بڑی خوبصورتی سے حاصل کئے ہیں وہ اسلامی دنیا کا واحد لیڈر ہے جسے لوگ محبوب رکھتے ہیں۔ترکی اور ہند کے مسلمانوں کا ایک تعلق بہت پرانا ہے جو پاک ترک دوستی کی بنیاد بھی ہے تحریک خلافت میں مسلمانان ہند نے ترک خلافت کے خاتمے پر جو لازوال کردار ادا کیا وہ آج بھی ترکوں کے ذہن میں ہے۔ترک پاکستان سے دوستی کرتے ہیں پیار کرتے ہیں وہ عربوں کے مقابلے میں پاکستان کے زیادہ دوست ہیں ۔انہیں وہ دن بھی یاد ہیں جب لارنس آف عریبیہ اور اور آل سعود نے حجاز اور نجد سے دیس نکالا دیا تھا۔اس کا مشاہدہ میں نے حفرل الباطن،قصیم بریدہ الخفجی ینبع دمام مکہ المکرمہ مدینہ المنورہ اور نجران جیزان بلاد بنی مالک و زہران میں ربع صدی قیام کے دوران دیکھا ہے۔
امریکی صدر ڈونلوڈ ٹرمپ جو کھیل کھیلنا چاہتے ہیں کیا وہ یہیں گولان ہائیٹس تک رہے گا نہیں حضور ایک بار امریکی صدر ریگن نے ملک فہد سے کہا تھا کہ یہودیوں کا خیال ہے کہ انہیں مدینہ منورہ سے نکالا گیا ہے اس بات پر آپ کیا رائے ہے۔مدینہ منورہ کے ائر پورٹ سے شہر کی جانب آئیں طوب الاحمر المیمنی چوک کے ساتھ خالی جگہیں ١٩٨٤ میں مفت دی گئیں تا کہ مسلمان یہاں آباد ہوں۔یہ چیز یہاں رکنے والی نہیں مجھے نجران کے ایک بدو نے وہ جگہ بھی دکھائیں جہاں یہودی رہتے تھے ،یہ جگہ بلکل انس علاقے کے پاس ہیں جہاں ایک نیک دل لڑکے کو آگ میں جلانے کا واقعہ ہوا جس کا ذکر قران پاک میں ہے۔افسوس وہ تصویریں میرے فیس بک اکائونٹ کے ساتھ ہی ختم ہو گئیں۔تہذیبوں کی لڑائی اگر شروع ہوئی تو طاقت ور کمزور ملکوں کو کھا جائیں گے پھر اسے صلیبی جنگوں کا ایک اور فیز کہہ لیجئے۔
نائن الیون کا معرکہ شروع ہوا تو امریکی صدر بش کے منہ سے کروسیڈ کا ذکر ہوا بعد میں وہ تردید کرتے رہے۔لیکن ہوا کیا دو بے کار عمارتوں نے مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔جس شام ساماکو فوکس ویگن کی ڈیلر شپ جدہ میں شام کے وقت اضافی کام کر رہا تھا جب طیارے ان بلڈنگوں سے ٹکرائے آگ بھڑکی تو فلسطینی یحی پاکستانی لڑکوں اور دیگر مسلمانوں نے شور مچایا کہ امریکہ تباہ ہو گیا تو ایک فلپینی جس کا نام مجھے آج بھی یاد ہے نوربی نے کہا مسٹر افتخار یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔رات کا آخری پہر ہے میرا اللہ گواہ ہے میں اس کے چہرے کو آج بھی اپنے سامنے پاتا ہوں تو کانپ کے رہ جاتا ہوں۔میں عربوں میں بہت مقبول تھا میں نے بہت کوشش کی ہال گلا بند ہو لیکن وہی ہوا نائن الیون آج بھی سر پر سوار ہے اب تو دنیا جس طرح کہا کرتی تھی زمانہ قبل از مسیح اب کہا جائے زمانہ قبل از نائن الیون اس لئے کہ سب کچھ بدل رہا ہے۔ہماری کس نے سننی ہے لیکن کاش کوئی امریکی صدر سے کہے کہ رویہ دلیں ایک جیسینڈا اڈرن کا رویہ ہے اور دوسرا آپ کا۔اسرائیل کو کیا ملا اس کی پوری ریاست کے لوگ خوف کی فضاء میں جی رہے ہیں۔یہ کیسی زندگی ہے جو ہر پل خوف کا شکار ہے۔گولان ہائٹس اگر اسرائیل امریکی اجازت سے قانونی کر بھی لے یہ وقت کی تختی پر لکھا جا چکا ہے کہ اسرائیل ایک حرام کی پیدا وار ہے۔اس نے مٹ کے رہنا ہے۔لوگ سب بھول جائیں گے لیکن کردار زندہ رہیں گے ایک کردار جیسنڈا اڈرن کا ہے اور دوسرا جناب ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے۔