اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات پر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دوبارہ جائزہ لیں گے۔
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی زیرصدارت سینیٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے اجلاس کے دوران امریکی صدر کی جنوبی ایشیا و افغان پالیسی سے متعلق پالیسی گائیڈ لائنز ڈرافٹ کا جائزہ لیا گیا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اجلاس کو ان کیمرا کرنے کی درخواست کی جس کے بعد پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے اجلاس کو ان کیمرا کردیا گیا۔
اجلاس کے دوران وزیر خارجہ نے ایوان کو بتایا کہ بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس ہوگا۔
خواجہ آصف کے مطابق اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں گے ۔
اجلاس کے دوران سینیٹر مشاہد حسین سید نے ذیلی کمیٹی کی تیار پالیسی گائیڈ لائنز پر ایوان کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی الزامات کے بعد فوری ردعمل کے لئے مستقل بین الوزارتی ٹاسک فورس بنانا ہوگی اور پارلیمانی سفارت کاری کو ملک کے قومی مفاد کے لئے استعال کیا جائے۔
سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی اعلان کے بعد امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے بیانات بھی مثبت نہیں آئے جس کے بعد پاکستان کو دوستانہ دارالحکومت بیجنگ، انقرہ اور ماسکو سے رابطہ کرنا چاہیے۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایران، وسطی ایشیا، چین کو نکال کر، بھارت کو شامل کرنے سے کام نہیں چلےگا، پاکستان کو ترکی، چین اور روس کے ساتھ مل کر علاقائی ردعمل دینا چاہیے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ امریکا سے پاکستان کو ملنے والے فنڈ سے متعلق حقائق کی شیٹ پر کام کیا جائے کہ امریکا نےحقیقت میں ہمیں کتنے فنڈز دیے، اخراجات کی ادائیگی بھی اتحادی سپورٹ فنڈ میں ڈالی گئی، ہم نے جتنا نقصان اٹھایا وہ تو اس امریکی فنڈ میں شامل نہیں۔
سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ وزیر خارجہ کو موجودہ صورت حال میں امریکا نہیں جانا چاہیے، حکومت نے اس سلسلے میں درست فیصلہ کیا ہے۔