تحریر : عقیل خان امریکی عوام اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہے یا بدقسمت جو انہوں نے ڈونلڈٹرمپ جیسے شخص کو صدر منتخب کیا؟ ان سے بہتر کون جان سکتا ہے مگرمسلمانوں کے خلاف اس نے صدر منتخب ہونے سے پہلے ہی بولنا شروع کر دیا تھا۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ریسلر ہے اور وہ ریسلر ہے جس کا شیوہ بے ایمانی تھا۔ جس نے کبھی کھیل میں ایمانداری نہ کی ہو وہ بھلا سیاست میں کیسے ایماندار ہوسکتا ہے؟مسلمانوں کا ایمان ہے کہ جو شخص بے ایمان ہو وہ کبھی فلاح نہیں پاتا اور میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر امریکی صدر انہیں پالیسیوں پر گامزن رہے تو وہ وقت دور نہیں جب امریکہ فضا میں پتوں کی طرح بکھرتا نظر آئے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے دنوں جنوبی ایشیا اور افغانستان کیلئے نئی امریکی کفارانہ ، مکارانہ اور مسلمان دشمن پالیسی جاری کردی جس میں بھارت کو تھپکی اور پاکستان کو سنگین نتائج کی کھلی دھمکی دی گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے افغانستان کیلئے مزید39فوجی بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری نئی حکمت عملی کا اگلا ستون یہ ہے کہ پاکستان سے معاملات نمٹانے کا طریقہ تبدیل کیا جائے ۔ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان جان لے افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے کا فائدہ ہوگا اور دہشتگردوں کی مدد جاری رکھنے سے بہت کچھ کھونا پڑے گا۔پاکستان کو اربوں ڈالردے رہے ہیں اور وہ اپنی سرزمین پر ان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دے رہا ہے جو آئے روز ہمارے لوگوں کو مارنے کی کوششں میں ہیں ۔خواہش ہے بھارت افغانستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرے ،ہم عراق کی طرح افغانستان میں جلد بازی سے انخلا کی غلطی نہیں دھرائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔ تقریبا آدھے گھنٹے تک کی گئی تقریر میں صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے بارے میں اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگیں۔ امریکی صدر کے مطابق 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔
یہی نہیں اپنی تقریر میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک سے ان تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انھی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں اور آئے روز ہمارے لوگوں کو مارنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ ہماری نئی حکمتِ عملی کا ایک(اہم) ستون یہ ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے روابط میں تبدیلی لائیں گے۔ ہم پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں، طالبان اور ایسے گروہ جو اس خطے اور دیگر دنیا کے لیے خطرہ ہیں ان کی محفوط پناہ گاہوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔
امریکی صدر کا خطاب کم اورپاکستان کو دھمکیاں زیادہ لگ رہی تھیں۔ شاید امریکی صدر کو معلوم نہیں کہ وہ جس ملک کو دھمکی لگا رہا ہے وہ افغانستان، عراق یا کویت نہیںجہاں وہ اپنی من منشا کے مطابق کام کرسکے گا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بچا دے گا۔شاید ٹرمپ بھول گئے کہ وہ(ریسلنگ کے رنگ میں نہیںاترے) جہاں وہ اور ان کے ساتھی دو نمبری کرکے میچ جیت جائیں گے ۔ٹرمپ ہروقت مدہوش نہ رہو اور ہوش میں آؤ۔یہ مسلمانوں کا ملک ہے جو اللہ کے فضل سے امریکہ کو دن میں تارے دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔امریکہ پاکستان کوپہلے جیسا پاکستان نہ سمجھے کیونکہ اب یہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔
امریکہ پاکستان کو فتح کرنے کا خواب تو دیکھ سکتا مگر حقیقت میں اب امریکہ اپنے آپ کو بچائے۔ امریکہ سولہ سال سے افغانستان میں قابض رہنے کے باوجود وہ ہاں اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہ کرسکا تووہ پاکستان پر حملے کی کیسے سوچ سکتا ہے۔جب امریکہ لاکھوں نیٹو فورسزسے ملکر افغانستان میں فتح حاصل نہ کر سکا تو اب نیٹو کی مدد کے بغیر چند ہزار امریکی آکر کونسا تیر مار لینگے؟کراچی سے خیبر تک بکھرے ہوئے ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے دہشت گرد پاکستان کو کمزور کرنے کی ہزاروں کوشش کے باوجودکچھ حاصل نہ کرسکے تو اب ان کے حواری کیا کرسکیں گے ؟جس وقت سابق امریکی صدر جارج بش نے پاکستان پر حملے کی دھمکی دی تھی اس وقت وہ واقعی ایسا کر سکتا تھااور اس وقت پاکستان کے پاس آپشنز محدود تھے کیونکہ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات خراب تھے۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔اب پاکستان کا تیمور مزائل 17 ہزار کلومیٹر کی پرواز کر سکتا ہے جو براہ راست امریکہ کے کئی شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ پاکستان چین اور روس کے ساتھ دفاعی اتحاد میں شامل ہوچکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہترین دوست چین نے فوراً ٹرمپ کے بیان پر ردعمل بھی دیا ہے۔ امریکہ کا جو درد ہے وہ ساری دنیا کو معلوم ہے۔سی پیک کی تکلیف انڈیا کو بہت زیادہ ہے اور اسکی تکلیف کا اثر امریکی مروڑ کی صورت میں ہمیں ملا جب ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکیاں دیں کیونکہ پاکستان اور چین کی دوستی ان دونوں ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور ان کو معلوم ہے کہ آنے والا وقت پاک چین کا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ خطاب کرتے ہوئے شائدبھول گئے کہ وہ ریسلنگ کے میدان میں ہیں اور جتنی بڑھک مار سکتے ہیں وہ مار لیں۔ اسکو اندازہ ہی نہیں پاکستان کے بغیر اس خطے میں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا چاہے انڈیا سے جتنی مرضی پینگیں بڑھا لے مگر پاکستان کے بغیر ایک آنے کا نہیں۔۔ آج تک امریکہ نے دنیا بھر میں حملے کیے لیکن اسکی اپنی عوام ہزاروں میل دور بیٹھ کر چین کی بانسری بجاتی رہی لیکن اگر پاکستان سے جنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان شاء اللہ امریکی عوام اور خواص براہ راست اس جنگ کا مزہ چھکیں گے۔
ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکی دی توجواب میں ہمارے حکمرانوں نے تو زبان نہیں کھولی مگر ہماری پاک آرمی نے منہ توڑ جواب دے کر ٹرمپ کی اس کی اوقات یاد دلادی ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جس 10 ارب ڈالر کی امداد پر اچھل رہا ہے اس کاجواب بھی آرمی چیف نے واضح الفاظ میں دے دیاکہ ہمیں کسی مدد کی ضرورت نہیں ۔ ہم نے دہشتگردوں سے لڑتے ہوئے لاکھوں افرادشہید کرادیے ۔آرمی چیف کے بیان کے بعد ٹرمپ اور اسکے پیچھے چھپے حواریوں کوواضح پیغام مل گیا اور وہ واپس اپنی اوقات میں آگئے ہونگے۔ یہی نہیں امریکی دھمکیوں کے جواب میں آرمی چیف کی طرح ہمارے سیاستدانوں کو بھی متحدہ ہوکر واضح جواب دینا چاہیے تاکہ اس کو پتہ چل سکے کہ آرمی ہی نہیں ہمارے سیاستدان بھی ملک کے ساتھ مخلص ہیں اوربرا وقت آنے پر سب ایک ساتھ ہیں۔