سچ پوچھیئے ہمارا کردار کوئی نہیں

سچ پوچھیئے ہمارا کردار کوئی نہیں
یہ حقیقت ہے شرمسار کوئی نہیں

کرتے ہیں یہاں پر سب دعوے
کہہ سکیں جسے وفادار کوئی نہیں

رائج ہوا جہاں زکوة کا نظام
اس معاشرے میں نادار کوئی نہیں

چھائی ہے خزاں ایسی چمن میں
کسی چہرے پر بہار کوئی نہیں

دوڑ پڑے دوڑنے والوں کے ساتھ
رفتار دیکھتا سمت رفتار کوئی نہیں

بنے ہیں سواری سب عقل کی
اس عقل پر پہ سوار کوئی نہیں

مقیم رہ کر چند سال حکیم بولا
مدینے کی نگری بیمار کوئی نہیں

فقیروں تاجروں کاایک ہی نعرہ
لے لو نقد ادھار کوئی نہیں

آئیڈیل کی جدید فہرست میں جناب
ہمارے اسلاف کا شمار کوئی نہیں

کہتے ہیں لیڈر عوام قربانی دیں
خود دینے کیلئے تیار کوئی نہیں

دائیں بائیں دیکھ چلتے ہوئے صدیق
رہزن ہیں بہت راہگزار کوئی نہیں

Society

Society

تحریر : محمد صدیق پرہار