تحریر : میر افسر امان امن پسند ذرائع، خصوصاً پاکستان نے افغانستان میں مشہور جہادی افغان کماندڑ گلبدین حکمت یار کی طرف سے افغان حکومت کے ساتھ امن کے مذاکرات شروع کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ مگر کچھ لوگ اس کڑوے سچ کو ہضم کرنے کے بجائے ،زہریلا جھوٹ بول کر افغانستان میں گلبدین حکمت یار کی انتھک اور شانداد جہاد کی جد وجہد کو اپنے مخصوص عزائم کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُسے کابل کا قصائی لکھتے ہیں۔ گلبدین حکمت یار کی حمایت کی وجہ سے جماعت اسلامی پر بھی الزام لگاتے ہیں۔
مخصوص نظریات کے حامل یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ایرانی حمایت یافتہ شمالی اتحاد نے سیکڑوں پٹھونوں کو کینٹینرز میں بند کیا اور وہ دم گھٹنے کی وجہ سے وہ شہید ہو گئے تھے۔ افغان قوم عرصہ چالیس سال سے بیرونی جارحیت کا شکار ہے۔لاکھوں لوگ ہجرت کر کے پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہوئے۔ لاکھوں اس بیرونی جارحیت میں شہید ہوئے۔ لاکھوں عورتیں بیوہ ہوئی۔ بچے یتیم ہوئے۔ ظالم حملہ آوروں نے پورے افغانستان میں کارپٹ بمباری کر کے اُسے تورا بورا بنا دیا ہے۔ مگر اس آزادی پسند قوم کوشکست نہیں دے سکے۔یہ قوم کبھی بھی کسی کی غلام نہیں رہی ہے۔ تاریخ میںسب سے پہلے برطانیہ نے افغانوں کو غلام بنانے کی کو شش کی۔ انگریزوں نے سرخ انقلاب کو دریائے آمو تک محدود رکھنے کی غرض سے افغانستان پر 1838 ء میں اپنے جنوبی پنجاب اور بمبئی کے مرکزوں سے حملہ کیا اور شاہ شجاع کو تخت پر بٹھایا۔ اس کے بعد افغان قبائل نے انگریزوں پر حملے شروع کیے۔ کابل میں انگریز ایجنٹ سر الیک زنڈر برنیس کو قتل کر کے ٹکرے ٹکرے کر دیا۔ اسی دوران دوست محمد خاں کا فرزند ، اکبر خاں اپنی جمعیت کے ساتھ حملہ آور افغان قبائل کے ساتھ آ ملا اور انگر یزوں سے کہا کہ شاہ شجاع کود ست بردار کریں، انگریز سپاہ ملک خالی کریں۔اس وقت سیاسی اقتدار انگریز سفیر میک ناٹن کے ہاتھ میں تھا۔
Afghanistan Pakistan
اکبرخان نے اسے طلب کیا اس نے اکبر خان سے بدتہذیبی سے بات کی۔ اکبر خان نے اسے فوراً گولی سے اُڑا دیا۔ تمام توپیں اور گولہ بارود اکبر خان نے اپنے قبضے میں لے لیں۔ اس وقت انگریز فوج پانچ ہزار تھی اور گیارا ہزار لشکری تھے جو 1842 ء کو پشاور کی طرف روانہ ہوئے۔ ان فوجیوںکو کابل کے تنگ درے میںغلزئی قبائل نے گھیر لیا اور انہیں ختم کر دیا کیوں کہ اس قبیلے پر انگریزوں نے بہت ظلم کیا تھا۔ مشہور ہے کہ پورے لشکر میں سے صرف ایک فرنگی ڈاکڑ واپس پشاورآیا۔ اس کے بعد روس نے گرم پانیوں پر قابض ہونے کے لیے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ افغانیوں نے درے کی بندکوں سے روس کا مقابلہ شروع کیا۔ افغان اس وقت پاکستان کے حکمران بھٹو کے پاس مدد کے لیے آئے۔ بھٹو نے ان کو درے سے اسلح خرید کر دیا۔ اس کے بعد نو جہادی افغان گروپوں نے روس کے خلاف جہاد شروع کیا۔ان نو جہادی گروپوں میں گلبدین حکمت یار کے مجاہدین کا گروپ سب سے بڑا تھا۔اس جنگ میں امریکا تقریباً دو سال بعد اپنے سرد جنگ کے دشمن روس کے خلاف شریک ہوا۔
روس کے گرم پانیوں تک آنے سے روکنے کے لیے افغانوں کی مدد کی۔ساری اسلامی دنیا کے مجاہدین اس افغان جنگ ہوئے۔ بلا آخر امریکا کے اسٹنگر میزائل نے اپنا کام دکھایا اور روس افغان جنگ ہار کر نامراد واپس لوٹ گیا۔ یاد رکھیں،جس روس نے بنگلہ دیش بنانے میں بھارت سے دفاعی معاہدہ کر کے بھارت کی مدد کی تھی ،پاکستان کی آئی ایس آئی نے افغانیوں کے ذریعے روس سے بدلہ لے لیا۔ اور روس کے ٹوٹنے سے دنیا میں چھ اسلامی ریاستوں، قازقستان، کرغیزستان، اُزبکستان،ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں۔مشرقی یورپ کی ریاستیں آزاد ہوئی۔ دیوار برلن ٹوٹی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ افغانستان میں جس اسلامی ریاست کے لیے جہاد شروع کیا تھا وہ قائم ہوتی مگر امریکا نے افغانستان میں خانہ جنگی شروع کرنے کے لئے پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں ایک کمزور شخص مجددی کو تخت پر بٹھا دیا۔
پھر نو جہادی آپس میں لڑنے لگے۔اس دوران فغانستان میں پھر امریکا اور پاکستان کے حکمرانوں کی سازش سے طالبان سفید جھنڈا اُٹھا کر میدان میں آ گئے۔ گلبدین حکمت یار نے طالبان سے لڑائی کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کیا اور ان کا راستہ نہیں روکا۔جبکہ شمالی اتحاد جس میں ایران کے اثرات تھے،نے مذاہمت کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے اُس وقت کے وزیر داخلہ نے تاریخی بیان دیا تھا کہ طالبان ہمارے بچے ہیں۔مگر شیطان کی چال سے اللہ کی چال زیادہ کارگر ہوئی۔
Taliban
طالبان نے پاکستان اورامریکا کی ڈکٹیشن ماننے انکار کر دیا۔ افغانستان میں اسلامی نظام حکومت رائج کر دیا اور افغانیوں نے ملا عمر کو اپنا امیر تسلیم کر لیا۔امریکا نے نائین الیون کا الزام اُسامہ پر لگا یا۔اسی بہانے مسلمانوں اور افغانوں کے محسن شیخ اُسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا کہا مگر ایک غریب ملک کے امیر ملا عمر نے اسلامی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیو ورلڈ آڈر کا حکم چلانے والے وقت کے فرعون کی بات نہیں مانی اور کہا کہ میں جرم ثابت ہونے کے بغیر اُسامہ بن لادن کو تمھارے حوالے نہیں کروں گا۔
وقت کا فرعون اپنے ٤٨ ملکوں کی نیٹو فوجوں کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف ناعاقبت اندیش نے افغانیوں کے خلاف امریکا کو پاکستان کے بحری ،بری اور فضائی راستے مہیا کر دیے ۔ امریکا اور ناٹو فوجیں ١٥ سال تک پورے افغانستا ن کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود افغان کو غلام نہیں بنا۔امریکی عوامی دبائو اور بے انتہا جنگی اخراجات کے وجہ سے واپس نامراد چلا گیا۔ اپنی جنگ کو اب پاکستان میں لے آیا ہے ہمیں کہتا کہ تم افغان طالبان پر حملہ کر کے افغان پٹھو کو بچائو۔ مگر پاکستان کی موجودہ فوج کے سربراہ نے طالبان کوامن کے طرف راغب کرنے کی پالسی اختیار کی ہے۔ امن کے لیے کچھ اجلاس بھی ہوئے تھے مگر بھارت نے اسے سبوثاژ کر دیا تھا۔ اب افغانستان میں پاکستان مخالف، ایران کے حمایتی شمالی اتحاد، امریکا اور بھارت کے حمایتی قوم پرستوں کی حکومت ہے۔ اگر پاکستان کے حمایتی گلبدین حکمت یار امن کے مذاکرات کر رہا ہے تو کڑوا سچ برداشت کرنے کے بجائے ایک بڑی جہادی تنظیم کے سربراہ کے خلاف زیریلہ جھوٹ بھول کر مذاکرات کو سبوثاژ کر کے کس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی سازش ہے؟
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان