سچائی کے قتل کی کوشش

 District Government

District Government

ضلعی حکومتی دور یعنی کہ ناظمی دور کی ابتدا میں صحافتی زندگی کا آغاز ابھی کیا ہی تھا کہ اُس وقت کے ایک ضلع ناظم کی جانب سے لگائی گئی کھلی کچہری میں جانے کا اتفاق ہوا،اس کچہری میں لوگوں کی جانب سے کی جانے والی شکایات کے انبار دیکھنے کو ملے ،ناظم صاحب نے بڑی تحمل مزاجی سے اِنہیں سنا اور مناسب احکامات بھی جاری کئے ، آخر میں ان تمام تر مسئلے مسائلوں کا ایک ہی حل بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے دنیا کے بہت سے ممالک گھومے پھر ے ہیں ،اتنے مسئلے مسائل مجھے کہیں نظر نہیں آئے جتنے پاکستانی عوام کو درپیش ہیں ،جس کی وجہ جاننے کی انتھک کوششوں کے بعد معلوم ہوا کہ جس ممالک میں جتنا جھوٹ بولا جاتا ہے اُس ملک کی قوم کو اُتنے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہذا اگر ہم جھوٹ بولنا جھوڑ دیں تو 90 فیصد مسائل خود بخود ہی ختم ہو جائیں گے۔

اُن کی اس بات نے بہت گہرے اثرات مرتب کئے، جس کی بدولت اس حقیقت کے مخالفین نے سچ بولنے یا لکھنے والوں کا جینا تک حرام کر دیا، آخر تھک ہار کر کسی نے تو گھٹنے ٹیک دیئے او ر کوئی ڈٹا رہا جو ڈٹا رہا اُس کی مار پٹائی جھوٹے مقدمات سنگین نتائج کی دھمکیاں قتل کر دینے کی کوششیں اور جیل جیسی سزائوں تک کا سامنا بھی کرنا پڑا، مگر پیچھے نہ ہٹتے ہوئے گزشتہ کالم میں پرنٹ میڈیا کے نمائندوں میں پائی جانے والی خامیوں، خوبیوں اور پولیس کی رشوت خوری و جرائم پیشہ عناصر کی سر پرستی پر بھی حقائق لکھ بیٹھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی پنجاب میں واقع ضلع پاکپتن کے ڈی پی او کے پاس ایک رپورٹر کی جانب سے ایک جھوٹی اور بے بنیاد درخواست گزار دی گئی کہ یہ شخص پاکستان کے ایک بڑے نیوز چینل کا رپورٹر ہونے کا دعوہ کرتا پھر رہا تھا میرے اس سے تصدیق مانگنے پر اس نے مجھے قتل کر دینے کی دھمکیا دیں ہیں لہذا اس نے میرے چینل کا نام استعمال کر کے دھوکہ دہی فراڈ کیا ہے اس کے خلاف کاروائی کی جائے، جس پر ڈی پی او نے یہ درخواست متعلقہ تھانہ فرید نگر کو مارک کر دی، یہ وہ تھانہ ہے جہاں تعینات سب انسپکٹر کے گھر سے تین خطر ناک ڈاکو گرفتار ہونے کی مختلف چینلز اور اخبارات میں پاکستان کے ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی جانب سے خبریں نشر وشائع ہوئیں تھیں اور (کالم کاش میں کانسیٹبل ہوتا) میں بھی تنقید کا نشانہ بنا تھا۔

Police Department

Police Department

جس پر حکام بالا نے جب پوچھ کچھ کی تو پولیس ڈیپارٹمنٹ کے کچھ لوگوں نے بہت گہرا دُکھ محسوس کیا، اس کے کچھ ہی یوم بعدشائع ہونے والے میڈیا کی خوبیوں وخامیوں پر مبنی کالم کی وجہ سے جب کچھ رپورٹز کو بھی دکھ ہوا تویہ دُکھوں تکلیفوں کے مارے دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے زخموں پہ مرہم کرنے کیلئے یہ درخواست گزارنے اور اُس پر کاروائی کرتے ہوئے کالمسٹ کو نشانِ عبرت بنانے کا منصوبہ بنالیا، اس درخواست کو فارورڈ کرتے وقت یہ نہیں سوچا گیا کہ ہم متنازع، تنز کرنے والے کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتے لہذا درخواست گزار کو ہمیں ایک غیر متنازع ادارے یا شخصیت کے پاس بھیجنا یا جانا چاہئے جس کی وجہ یہ تھی وہ غصے میں تھے اور غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اور نا ہی اس درخواست پر اندراج مقدمہ سے قبل کسی بھی کسی کی کوئی سماعت کی گئی ہے تاکہ دورانِ سماعت اندراج مقدمہ سے قبل ہی درخواست کہیں جھوٹ کا پلندہ ہی نہ ثابت ہوجائے نے، جو کہ جھوٹی تو اس بات ہی ثابت ہو جاتی ہے کہ دنیا کے کسی بھی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے ادارے کے نمائندے سے تصدیق مانگنے پر کبھی کسی بھی رپورٹر نے کسی بھی ادارے کا نمائندہ نہ ہونے کے باوجود نمائندہ ہونے کا ناکبھی کہیں تعارف کروایا ہے اور نہ ہی کسی کے سمجھانے پر کبھی کسی کے مشتعل ہونے کا واقع میں کہیں پیش آیا ہے کیونکہ میڈیا پرسنز نہ ہی تو پاگل ہوتے ہیں اور نہ ہی مذہبی جنونی، اگر ایسا ہوتا تو ہر روز ہر سرکاری و غیر سرکاری اداے میں ہر نمائندے کی تصدیق مانگی جاتی ہے۔

اور ہر روز ہر ادارے میں ہی کسی نا کسی رپورٹر کا کسی ناکسی سے لڑائی جھگڑا ہوا ہوتا، جس کی وجہ ایک عام انسان کی نسبت برداشت کا مادے کا ان میں زیادہ ہوناہے جو کہ ایک مصدقہ حقیقت ہے، جسے ایک نیوٹرل انسان ہی سمجھ سکتا ہے، مگرجس پر بدلے کا بھوت سوار ہو اُسے ان باتوں کا کب خیال رہتا ہے، اگر رہتا ہے تو بس ایک ہی خیال رہتا ہے کہ کب موقع ملے اور کب مرہم ہو ہمیں اور موقع مِلتے ہی وہ اِس سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا اور وہ ذاتی انتقام کیلئے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر محکمانہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرنے کی سوچ بچار کی بجائے لاٹھی ٹوٹے بغیر سانپ مارنے کی کو ششوں میں مگن رہتا ہے، جیسا کہ متذکرہ بالا واقع میں ہوا، جس پر پورا پاکستانی میڈیا سراپا احتجاج ہے مگر انتظامی سطح پر کسی کے بھی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی کیونکہ اِس میں حکومت سے وفاداری ثابت کرنے کیلئے خود گرفتاریاں دینے والے کچھ سستی شہرت کے خواہش مند بھی شامل ہیں۔

جن کے یہ اقدامات میرٹ اور انصاف کی علمبر دار موجودہ مسلم لیگی حکومت کو عالمی برادری اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کی نمائندہ تنظیموں کے سامنے آنکھوں سے اندھی ہاتھوں سے لولی اور پائوں سے لنگڑی ثابت کر تے ہوئے ملکی آئین کا مزاق اُڑانے کے عین برابر اور میاں شہباز شریف کے ہر شہری کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کے جذبہ کا جنازہ نکالنے اور آزادی صحافت پر ایک زور دار حملہ کرتے ہوئے سچائی کا قتل عام کرنے کی ایک کوشش کے علاوہ کچھ نہیں، جو کہ شاہینوں کی پرواز میں کمی نہیں لا سکتیں، کیونکہ میرا یہ ایمان ہے کہ خدا جسے عطا کرتا ہے عطا کرنے سے پہلے اُسے اِس کے قابل بھی بناتا ہے، لہذا حضرت عمر فاروق کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش مند حکومت جہاں اس قسم کی سازشوں کا سامنا ہے وہاں خدا نے اِنہیں اِن سے نمٹنے کی صلاحیتوں سے بھی خوب نواز رکھا ہے مگر حالاتِ حاضر میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے (فی ایمان ِللہ)۔

Muhammad Amjad khan

Muhammad Amjad khan

Email:Pardahchaak@gmail.com
منجانب: محمد امجد خان
Mobe No:0343 6999818