سچائی کا نوبل انعام

Salahuddin

Salahuddin

تحریر : ایم سرور صدیقی

شیدا میدے کے گھر گیا کافی دیر کال بیل بجائی تو اس کی چھوٹی بیٹی نے دروازے سے باہر جھانکا میں نے محسوس کیا جیسے وہ رو رہی ہو اس کی آنکھوں میں تیری نمی صاف نظر آرہی تھی وہ اندرگئی ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیا اندر اس کی بیوی بچے اور خود شیدے کی حالت عجیب تھی لگتا تھا سب کے سب رو رہے تھے شیدا گھبراگیا اس نے دل ہی دل میں کہا الہی خیر۔۔ابھی اس نے کچھ کہنے کیلئے لب وا ہی کئے تھے کہ میدا پھٹ پڑا یار اس ملک میںغریب اور امیر چور کیلئے قانون الگ الگ کیوں ہیں؟ شیدے نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے خالی خالی نگاہوں سے باری باری سب کو دیکھا وہ پھر بولا

کمزورکو گرفتار کرنے کے بعد ” لتریشن آرڈر”
اور طاقتور کی گرفتاری کے بعد ” پروڈکشن آرڈر”…

آگ نہ لگا دی جائے ایسے نظام کو …؟اللہ پاک بڑا بے نیاز ہے ہر چیز پر قادر ہے۔ یقیناان پولیس والوں کو مکافات عمل کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا۔ انشا ء اللہ بے شک اللہ تعایٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے ۔۔۔وہ بولا تو پھر بولتاہی چلا گیا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک گورنر کو روانہ کرتے ہوئے پوچھا اگر تم کبھی چوڑ پکڑو تو کیا سزا دو گے گورنر نے جواب دیا “اسکے ہاتھ کاٹ دونگا” تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بدلے میں جواب دیا “اگر چور نے بھوک کی و جہ سے چوری کی تو میں تمہارے ہاتھ کاٹ دونگا” یہ ہے اسلام اور یہ ہے انصاف ۔۔تھانیدار کی عدالت تھانیدار ہی جج تھانیدار ہی جلاد واہ رے بابا تیرا پاکستان یار تم نے صلا ح الدین کی ویڈیو دیکھی ہے جب سے دیکھی ہے ہمارا تو رو رو کربراحال ہوگیاہے یار اتنا ظلم،اتنی سفاکیت، اتنی وحشت کہ درندے بھی شرما جائیں یہ ظالم تو حیوان کہلانے کے بھی حقدار نہیں ہیں حضرت علی نے تو کہا تھا کفر کا نظام چل سکتا ہے۔

ظلم کا نہیں ہم تو70 سالوں سے اس ظلم کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں اشرافیہ کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد میک اپ نہیں اترتاغریب صلاح الدین کی چند گھنٹے میں ہی کھال اتار دی. یار شیدے میں سوچتاہوں جن کا بیٹا اتنی بے دردی ماردیا گیااب ان کاکیا ہو گا کچھ نہیں کچھ دن بعد سب بھول جائیں گئے صرف وہ ماں باپ کو ہی یاد آتا رہے گا ساری عمر ان غریبوں کی کون سنے گا اللہ تعالی اس کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب کرے پر ایک بات ہے گوجرانوالہ کا صلاح الدین خود تو مر گیا پر مرتے مرتے اس دیس کے بوسیدہ نظام پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے اس لئے میرے ذہن میں خیال آتاہے بڑے چوروں ڈاکوئوں کا اس ملک میں بال بیکا نہیں ہوتا کیونکہ وہ بڑا ہاتھ مارتے ہیں ان کے تحفظ،پروٹوکول ک اور وی آئی پی ٹریٹمنٹ حکومت اور سرکاری ادارے دیتے ہیں۔ میدے کو جیسے کوئی دورہ پڑگیاہو وہ پھربولا
تم کشمیر کو رو رہے ہو , ہم کشمیر کو رو رہے ہیں ,,؟ یہاںتو ظالموں نے ہر تھانہ مقبوضہ کشمیر بناکررکھ دیاہے لگتاہے ظالم نریندرمودی بن گئے ہیں۔

میں نے تو سنا ہے شیدے نے گم سم ہوکر کہا صلاح الدین ہارٹ اٹیک سے فوت ہوا تھا؟
میدے نے دور کہیں دیوارکو گھورتے ہوئے کہا ہاں یارہارٹ اٹیک بہت بْرا حادثہ ہوتاہے۔اس سے ہتھیلی کا گوشت پھٹ جاتا ہے۔ بازو کی بوٹیاں باہر آجاتی ہیں۔ پسلیاں ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ کلائی کی ہڈی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ بازو کے پٹھے اور سینے کے اطراف سے جلد کا اوپری حصہ جل کے ختم ہو جاتا ہے جسم کے نازک حصے کٹ جاتے ہیں اور سارے جسم پہ نیل پڑ جاتے ہیں۔جسے یقین نہ آ رہا ہو وہ جا کے “صلاح الدین” کی میت دیکھ لے ۔قتل کو ہارٹ اٹیک کا نام دینے کا مطلب ہے افسوس صد افسوس کہ ہم سب کی بے حسی انتہا کو پہتچ چکی، میرے خیال میں خاموش رہنا اب بے غیرتی ہے ی ا ک زہنی مریض کا اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چرانے کا جرم اتنا سنگین قرار پایا کہ اسے مار مار کر مار دیا گیا۔ سزا دینے کی ایسی روایت 50 سالوں سے غریب پاکستانی قوم کے وسائل لوٹنے والے مجرموں کی مرتبہ کیوں نظر نہیں آ ئی۔

اس نے کسی بہت بڑے فلاسفرکے سے انداز میں کہا کروڑوں اربوںکی کرپشن کے الزام میں درجنوں سیاستدان جیل میں بھرپور شاہی پروٹوکول کے ساتھ برائے نام قید کی سزا رسما پوری کرر ہے ہیں لعنت ایسے نظام پر جس میں اربوں کھا نے والوں کو سیلوٹ مار ے جاتے ہیں اور غریبوںکا براحال ہورہاہے اشرافیہ کو چھٹی والے دن بھی عدالتوں سے” انصاف”۔ کے نام پر ریلیف مل ھاتاہے۔۔چرچل نے دوسری جنگ ِ عظیم میں کہا تھا اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو برطانیہ کبھی نہیں ہارے گا۔۔ یارسمجھ میں یہ نہیں آتا کہ صلا ح الدین نے اتنا کیا جرم کر لیا تھا وہ تو ایک ذہنی مریض تھا اس نے ایک اے ٹی ایم مشین توڑی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اس کے لیے اس کو جرمانہ ہونا چاہیے تھا اس کو سزا ہونی چاہیے تھی دو چار مہینے کی لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کو پولیس والوں نے کیوں مار دیا ؟میں نے تو سنا ہے کہ زرداری اور نوازشریف اور جتنے بھی سیاستدان جیل میں ہیں وہاں مزے سے ہیں جنہوں نے ملک لوٹا جنہوں نے کھربوں روپے لوٹے ان کے ساتھ تو یہ ایسا سلوک کرتے ہیں جس نے ایک اے ٹی ایم مشین توڑی ذہنی مریض تھا اس کو مار دیا یہ کون سا قانون ہے۔

سیاستدانوں کا 14 دن کا جسمانی ریمانڈ مہینے میں دو دفعہ دیا جاتا ہے ان چودہ دنوں کے دوران وہ مزید اچھی صحت بنا کے دوبارہ کورٹ میں پیش ہوتے ہیں اچھے پرنٹر سوٹ پہن کے آگے پیچھے پولیس پولیس کی بکتر بند گاڑیاں اور جانے کیا کیا انتظامات کیے جاتے ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں اس غریب کو مار مار کے مار ڈالا ظا لموںکو حساب دینا پڑے گا ضرور ضرور دینا پڑے گا اس جہاں بھی بھ اس جہاں میں بھی شیدے نے سر ہلاتے ہوئے کہااصل میں پاکستان میں جو پولیس کا سسٹم ہے یہ ختم ہونا چاہیے کیونکہ ان سے لوگوں کو ڈر لگتا ہے ہے اس کی جگہ پاکستان آرمی کو کو تھانوں کا انچارج سنبھالنا چاہیے چاہیے کیونکہ کہ ہمیں پتا ہے کہ ہمارے ارے اصل محافظ بس ہماری پاک آرمی ہے ہے ویسے یار جس ملک کا چیف جسٹس خود پکڑ کر شراب کو شراب ثابت نہ کر سکے وہاں عوام کو انصاف کدھر سے ملے گا؟

صلاح الدین خود تو مر گیا پرمرتے مرتے اس دیس کے بوسیدہ نظام انصاف پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ گیا اس کا کہنا۔ ایک بات پوچھوں آپ مارو گے تو نہیں ہاں پوچھو سر۔آپ نے یہ مارنا کہاں سے سیکھا ؟ صلاح الدین کا یہ سوال تمام مردہ ضمیروں کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے ویسے جس ڈاکٹرنے یہ سر ٹیفکیٹ دیاہے کہ صلاح الدین پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا ہمارا مشورہ ہے اسے سچائی کے نوبل انعام کے لئے نامزد کیا جائے اب ایک سوال وزیر ِ اعظم سے بھی کرنے کو جی چاہتاہے عمرا ن خان آپ کو تھانہ کلچر تبدیل کرنا چاہتے تھے ایک سال ہوگیا آپ کا وعدہ کیا ہوا ؟لیکن پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کوئی اصلاحات نہیں ہوئیںـ ہمیں اللہ کے بعد آپ سے امیدیں ہیں تو مہربانی کرکے اس طرف کوئی دھیان دیجئےـ صرف ان ظالموں کو سزا ہی نہیں دینی بلکہ اس گندے اور استحصالی سسٹم کو ختم کرنا ہے تاکہ کل کو کوئی اور صلاح الدین اس کا شکار نہ بن سکے۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی