جب کبھی انسان سچائی اور دیانت داری کے ساتھ کوئی بھی پیشہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس میں ترقی و کامیابی عطاکرتے ہے۔لیکن نفاق اور دھوکہ دہی کے ذریعہ کو اختیار کرنے میں انسان کا اپنا اور دوسروں کا نقصان کربیٹھتاہے۔یہاں پر انسانوں میں ایسی صفات رذیلہ پیدا ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے وہ بڑی تیزی کے ساتھ جہنم کی طرف دھکیلے جارہے ہیں اور وہ لوگ اس بری خبر سے ناواقف ہیں۔انصفات میں سے ایک منافقت کی صفت بھی ہے ۔یہ صفت قبیحہ مختلف اداروں کے ملازمین میں روزانہ کی بنیاد پر پنپ اور بڑھ رہی ہے۔منافقت کا یہ مرض انسان کی ذات اور اس کے دین کے لیے نقصان دہ ہے۔ایسے لوگ منافقت کو اختیار کرتے ہیں جو اپنے پیشہ میں مخلص نہیں ہوتے اور نہ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔منافق کی صرف ایک کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی حیلہ بازی سے منتظم ادارہ کی خوشنودی حاصل کرلے۔
یہ نفاق کا مرض تقریباً تمام اداروں کے بہت سے ملازمین میں پایا جاتاہے کہ وہ اپنے ہم نوالہ و پیالہ کی خبریں روزانہ کی بنیاد پر منتظم ادارہ کو پیش کرتے ہیں تاکہ منتظم یہ یقین کرلے کہ وہ منافق اس کے ساتھ مخلص ہے۔یہاں تک کے نجی و خالص ذاتی باتوں سے متعلق بھی وہ منتظم کو گاہے بگاہے آگاہ کرتا رہتاہے۔یہ گھٹیا اخلاق کی علامت بہت سے لوگوں میں موجود ہے کہ لوگوں کے راز ونیاز کی باتوں کو آئے روز منتقل کیا جائے۔خاص طورپر یہ وہ لوگ کرتے ہیں جو ناحق عہد ہ ومنصب حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ اس طرح کی خبریں نقل کرنے سے منتظم کے دل میں گھر کرکے ایسوسی ایٹ سے پروفیسر یا پروفیسر سے فیکلٹی کا ڈین بن جائے۔منصب کے حصول کے لیے صبح و شام منتظم ادارہ کی چوکھٹ پرذلت و رسوائی کے چہرہ کے ساتھ حاضری دیتا نظر آتاہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے دوستوں پر سربراہی و قیادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
منافقت انسان کو ایسا اندھا کردیتی ہے کہ اس کا حامل لوگوں کی ناحق تعریف کرنے می مصروف ومشغول ہوجاتاہے جبکہ فی الحقیقت وہ صفات و اچھائی اس انسان میں موجود ہی نہیں ہوتیں۔دھوکہ دینے کے لیے یہ کہاجاتاہے آپ بہت عظیم منتظم ہیںکہ جس کے قریب بھی غلطی دائیں یا پائیں سے نہیں بھٹکتی۔آپ حکمت و دانشمندی کے ساتھ ادارے کو چلارہے ہیں کہ آپ جیسا کوئی اہل علم ہے ہی نہیں۔آپ اس قدر عظیم ہیں کہ آپ کا نام تاریخ میں فروگذاشت نہیں کیا جاسکے گا۔اتنی تعریفوں کے پل باندھ دیتاہے منافق کہ منتظم کا سینہ خوشی سے کشادہ اور وہ اپنی اہلیت و قابلیت پر اترانے اور غرور و تکبر کرنے لگتاہے۔آپۖ نے فرمایا منہ پر تعریف کرنے والے کی حوصلہ شکنی کرو۔جھوٹی تعریف کرنے والے منتظمین اداروں کو ہمیشہ حقیقت حال سے بے خبر رکھتے ہیں۔
ایک شاعر نے معزالدین اللہ فاطمی کے سامنے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جو تم نے چاہا وہ سب کچھ مقدر بن جاتاہے ،تم فیصلہ کرو تم ہیں تنہاقہار ہو۔اسی طرح منصور اندلسی کے پاس ایک شاعر گیا اور یہی شعر جو معزالدین اللہ فاطمی کی تعریف میں بیان کیا گیا تھا کو ایک شعر کے اضافہ کے ساتھ پیش کیا کہ ”تم نے جو چاہا وہ مقدر بن گیا ،پس تم فیصلہ کرو تم ہی اکیلے قہار ہو، ایسے جیسے کہ آپ محمد نبی ہو(نعوذ باللہ)اور آپ کے ساتھی انصار جیسے ہیں”۔منصور اندلسی نے فوراً اس شاعر کو گرفتار کرایا اور اس کو 5سو کوڑے لگوائے اور کہا کہ جو تم نے کہا یہی تو کفر ہے۔
مومن کی تو یہ صفت ہے کہ وہ منافقت نہیں کرتا کہ جو اس کے دل میں ہواسی کو زبان حال سے بیان کرتاہے ،اس کی زندگی دوسروں کی زندگی سے مختلف نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں قرآن کریم میں بیان کیا ہے کہ وہ دوزخ کے آخری حصہ میں ڈالے جائیں گے۔گویا منافق ایسا ہوتاہے جیسے مکھیاں گندگی کے ڈھیرپرمنڈلاتی رہتی ہیں۔گندگی پر جمع ہوتی رہتی ہے اور اس کے بغیر ان کی زندگی نہیں بسر ہوتی۔منافقت کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو گالم گلوچ کرنے اور ان نے جھگڑنے کی کوشش اس حدتک بڑھ جاتی ہے کہ جس کے خلاف سازش کا جال بنا جارہاہوتاہے اس میں رائی کے دانے کے برابر بھی وہ الزامات موجود نہیں ہوتے جن کو منتظم کے سامنے بیان کیا جاتاہے۔منتظم میں یہ مرض پیدا ہوجاتاہے کہ وہ جھوٹے تعریف کرنے والوں سے باغ باغ ہوجاتاہے اور ان لوگوں سے نفرت کرنے لگتا ہے جو اس کو حقیقت حال سے بغیر منافقت کے آگاہ کرتے ہیں۔منافقین کی چیرہ دستیاں خود ان کو اور منتظم ادارہ کو ہلاکت میں ڈال دیتی ہیں۔
اس بات میں کوئی تردد نہیں کہ منافقت کا مرض انسان میں بہت سی خرابیوں کو چھوڑجاتاہے ۔بہت سے نااہل یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر ترقی(پروموشن )حاصل کرنی ہے یا عہدہ و منصب حاصل کرنا ہے تواس کے لیے پیشہ سے مخلص ہونا ضروری نہیں ،منافقت کا مرض انسان کی امانت و دیانت کو تار تار کردیتاہے۔منافق یہ کوشش کرتاہے کہ وہ منتظم کو خوش کرنے کی جستجو کرتارہے جبکہ اپنی ڈیوٹی اور کام کا لحاظ و پاس رکھنا ضروری نہیں سمجھتا۔ ایک فیکلٹی کے ڈین نے مجھے ایک دن کہا کہ میری خواہش ہے کہ میری ادارت کا عرصہ بغیر کسی مشکل کے مکمل ہوجائے ۔ایک دن اس کو میں نے منتظم ادارہ کے سامنے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے دیکھا تاکہ وہ منتظم اس پر اعتماد کرلے۔کتنا براکام کرنے اور کرانے والا ہے۔
آپۖ نے تو حکم دیا ہے کہ امانت کی پاسداری و حفاظت کا انتظام کیا جائے اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ امانت (عہدہ و منصب)اس کے حقدار کو دیں اور لوگوں میں عدل کے ساتھ فیصلہ کریں۔مسلمان کی یہ صفت ہے کہ وہ اپنے کام میں مخلص اور امانت دار ہوتاہے ،لوگوں کی خدمت کرتاہے،انسانوں کو تعلیم دیتاہے اور اس کی ترقی میں کردار اداکرتاہے۔مسلمان ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوتاہے۔عہدہ و منصب ایک فرض منصبی ہے مسلمان اس فرض کو عبادت سمجھ کراداکرتاہے۔اور لوگوں کی خدمت کے لیے اخلاص کے ساتھ مصروف عمل ہے۔آپۖ سے ایک صحابی نے عہدہ و نصب طلب کیا تو رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ”عہدہ و منصب امانت ہے اس میں نقصان اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتاہے”فقہاء کااتفاق ہے کہ عہدہ ومنصب کے خواہش مند کو عہدہ نہیں دیا جاسکتاہے۔منتظم ادارے کی مااہلی کی وجہ سے ملازمین سازشوں میں مصروف عمل ہوتے ہیں اور وہ اپنے کام میں بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیںیہبات تشویشناک ہے ۔کیونکہ عہدہ و منصب کو نبھانے کے لئے پرہیزگاری ضروری ہے نہ کہ کسی کی محبت اور منافقت کی وجہ سے انسان کو ڈھیل دی جاتی رہے۔