پرانے وقتوں کی ایک کہاوت ہے کہ چوہوں کو بلی آئے روز کھانے میں مصروف رہتی تھی جس کی بنا پر چوہوں نے بلی کے خلاف ایک میٹنگ بلائی جس میں یہ طے پایا گیا کہ بلی کے گلے میں ایک گھنٹی باندھ دیتے ہیں کہ بلی جب ہم پر حملہ آور ہو گی ہم گھنٹی کی آ واز سن کر چھپ جایا کریںگے یہ سن کر تمام چو ہوں نے اس مشورے کو مشترکہ طور پر قبول کر لیا کہ اسی دوران ایک بزرگ چو ہے نے تمام چوہوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا بزرگ چوہے کی اس بات کو سن کر تمام چو ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ اسی دوران ایک چوہے نے اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی میں باندھوں گا چونکہ مجھے اپنی جان سے زیادہ اپنی قوم کی جان عزیز ہے بالکل اسی طرح میں یہ بخوبی سمجھتے ہوئے کہ اس ناسور معاشرے میں سچ بولنا اور سچ لکھنے والے کو اس معاشرے کے ناسور جو نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھے ہیں بری نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اس کے باوجود میں صحافت جیسے مقدس پیشے اور بالخصوص اپنے ملک و قوم کی بقا کے حصول کی خا طر سچائی کا دامن تھام کر حقائق پر مبنی کالم و خبریں ارباب و بااختیار کی نظر کر نا میں اپنا فرض عین سمجھتا ہوں تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ایک شخص نے بھری محفل میں پو چھا کہ انسان کو زیادہ تر مر چیاں کب لگتی ہیں تو اس محفل میں سے ایک شخص نے اُس شخص کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس معاشرے میں ہر اُس شخص کو مرچیں سب سے زیادہ اُس وقت لگتی ہیں کہ جب اُسے حقیقت پر مبنی آ ئینہ دکھایا جاتا ہے بحرحال میں گزشتہ روز سچائی کی جستجو کے حصول کی خا طر اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اسی دوران چند ایک افراد جن کے چہرے بے بسی و لا چارگی کی تصویر بنے ہوئے تھے ہونٹ خشک پتوں کی طرح مر جھائے ہو ئے جبکہ سر کے بال بکھڑے ہوئے بادلوں کی طرح جسم پر پھٹے پرانے کپڑے زیب تن کیے ہوئے میرے دفتر میں داخل ہو کر بڑے درد ناک انداز میں کہنے لگے کہ ہم نے پی ٹی آئی کے چیر مین عمران خان اور اُس کے ہمراز ساتھیوں کو جسے ہمیشہ مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین ٹانگے کی سواریاں کہتے تھے کو پوری قوت کے ساتھ محض یہ سوچ کر کامیابی سے ہمکنار کروایا کہ یہ حکومت بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو کر ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کے چیر مین عمران خان وزیر اعظم بن کر اپنی مخالف جماعتوں کے قائدین کو این او آر دینے یا نہ دینے کے چکر میں پڑ گئے۔
جبکہ اُن کے منظور نظر ساتھی عثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب بن کر ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں بُری طرح ناکام ہو گئے جس کے نتیجہ میں بااثر منا فع خور افراد ڈریکولا کا روپ دھار کر ادویات سبزیات کپڑے دودھ چھوٹا بڑا گو شت یہاں تک برائلر گوشت جوکبھی ڈیڑھ سو روپے میں فروخت ہوتا تھا بغیر کسی ڈر اور خوف منہ مانگے داموں فروخت کر کے ہم جیسے سات سو روپے دہاڑی پانے والوں کا خون چوس رہے ہیں ان حالات کی روشنی میں ہم جیسے لا تعداد غریب افراد بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار رہے ہیں جن کی وفات کے بعد اُن کے باقی ماندہ خاندان جس قدر اذیت ناک زندگی گزارتا ہے جس کو دیکھ کر انسانیت جمہوریت اور بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے یہی کافی نہیں اس خود ساختہ مہنگائی کے نتیجہ میں ہم جیسے لاتعداد غریب افراد کی جواں سالہ بیٹیاں جہیز کے نہ ہونے کے سبب اور بالخصوص دولہا کے براتیوں کو کھانا نہ دینے کے سبب یونہی گھروں میں بوڑھی ہو رہی ہیں تو آج ہم یہاں آپ کی وساطت سے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ جمہوریت انسانیت اور اسلامی قوانین کے قائل ہیں تو آئے تو ہم جیسے سات سو روپے دہاڑی پانے والوں کی طرح صرف ایک ہفتے کیلئے اپنی زندگی گزار کر دکھائے اور اگر آپ ایسا کر نے سے قاصر ہے تو کم از کم انسانیت کی بقا کی خا طر ہمارے دکھوں کے مداور بن کر روز بروز بڑھتی ہوئی خود ساختہ مہنگائی کا خاتمہ اپنا اولین فرض سمجھ کر ادا کر دے۔
خداوند کریم نے قرآن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے حقوق العباد کے معنی ہے انسانیت کی بہتری اور بھلائی جس کی بقا کے حصول کی خا طر نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنے عزیز و اقارب بلکہ اپنے معصوم بچے علی اصغر کو بھی قربان کر دیا تھا یہاں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ آپ نے گزشتہ ڈیڑھ سال قبل بلدیہ جھنگ کو میو نسپل کارپوریشن کا درجہ دیا تھا جس کے نتیجہ میں ڈپٹی کمشنر مذکورہ میو نسپل کارپوریشن کا ایڈ منسٹریٹر اپنے فرائض و منصبی ادا کرتا رہا ایک اطلاع کے مطابق ورلڈ بینک نے مذکورہ میو نسپل کارپوریشن کو ستاسٹھ کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں جاری کیے جس میں سے سوا دو کروڑ روپے مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی سڑکوں پر لگائی گئی لائٹوں پر خرچ کر دیئے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ بھاری رقوم مشینری پر لیکن افسوس صد افسوس کہ مذکورہ میو نسپل کارپوریشن کا عملہ بر وقت تنخواہ و پنشن اور ترقی پانے میں تاحال قاصر یہی کافی نہیں اگر ضلع جھنگ کی روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب میں مذکورہ میو نسپل کارپوریشن جھنگ کے عملہ صفائی کو دیکھے جو نہ ہونے کے برابر ہے جس کے نتیجہ میں پورے شہر میں غلاظت کے انبار سیوریج کا نظام مکمل طور پر تباہ و بر باد جس کی وجہ سے ضلع جھنگ کی آبادی کے متعدد علاقوں کے رہائشی مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو کر بے بسی و لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔
مذید انہوں نے کہا کہ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب مذکورہ میو نسپل کارپوریشن جھنگ کے ارباب و بااختیار سے عملہ صفائی کی بھر تیاں کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ عملہ کی حسب قانون کے مطابق ملنے والی ترقی کے بارے میں پو چھتے ہیں تو یہ سن کر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ گورنمنٹ آف پنجاب نے تاحال لو کل باڈیز میو نسپل کارپوریشنز میو نسپل کمیٹیوں وغیرہ کی ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال شیڈول آف اسٹیلمنٹ منظور نہ کئے ہیں جس کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کے ملازمین کی بھرتی اور ترقی نہ ہو رہی ہے آ خر میں ہم وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے ایک درخواست کرتے ہیں کہ وہ ضلع جھنگ کی عوام کو آ گاہ کر ے کہ کیا جھنگ میو نسپل کارپوریشن ہے یا پھر بلدیہ اور اگر میو نسپل کارپوریشن جھنگ ہے تو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود شیڈول آف اسٹیلمنٹ کی منظوری میں تاخیر کیوں۔