تحریر: ایم آر ملک کیا یہ ہمارے زمانہ کی سنگ دلانہ ستم ظریفی نہیں کہ رائج الوقت جمہوریت ایک طرف آزادی صحافت کا راگ الاپتی ہے اور دوسری طرف اپنے آمرانہ طرز حکمرانی سے سچائی کے لبوں پر قفل لگا کر سچ کا قتل بے دریغ قتل عام کر رہی ہے ایک جمہوری دور میں اخلاقیات ،روایات اور اقدار کا تسلط ٹوٹ رہا ہے یوں تو تخلیق کائنات خود ایک ابلاغی طلسم”کن فیکون” سے ہی عبارت ہے مگر تمدن انسانی ارتقاء کے جن پر پیچ مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچاہے اسکی درست تفہیم ابلاغ کے فروغ و توسیع کے حوالے کے بغیرممکن نہیں زبانوں کی گوناگونی،لہجوں کی بو قلمونی،رسم الخط کے تنوع،نشرواشاعت کی ایجادات اور نتیجتاً زمان و مکان کی تسخیر ایسے تصورات ہیں جن کا صحیح ادراک ہمارے عہد کی اجتماعی و انفرادی زندگی کے نظم و ضبط کیلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
صحافتی آزادی معاشرتی اصلاح کے ضمن میں بنیادی عنصر ہے لیکن بین الاقوامی پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آر)کے مطابق دو تہائی عالمی آبادی ایسے خطوں میں آباد ہے جہاں ذرائع ابلاغ آزاد نہیں آزادی صحافت کے عالمی دن (Press Freedom Day) کے موقع پرسابق سکیرٹری جنرل اقوام متحدہ کوفی عنان نے اپنے ریمارکس میں کہاتھاِِِِِِ “آزادی صحافت صحافی کا وہ حق ہے جس کیلئے لڑا جانا چاہیے آزادی صحافت انسانی حقوق کا بنیادی عنصر ہے یہ وہ شے نہیں جو صرف خواہش کرنے سے مل جائے صحافیوں کا کردار ان حکمرانوں کو شرم دلاتا ہے جو قابل اعتراض پالیسیاں بناتے ہیں”
دوسروں کے دکھوں کو اپنے آپ پر سہنا کوئی آسان کام نہیں مگر وہ لوگ جو صحافت کی دائمی بقا ء کیلئے فضول خرچی اور ضمیر سے زیادہ سچ بکھیرنے میں مصروف عمل ہیںنہ صرف وہ آمرانہ جمہوری دور میں زیر عتاب بلکہ سچائی کا پر چار کرنے والے میڈیا چینلز بھی نام نہاد ادارہ پیمرا کے کالے احکامات کی زد میں ہیں اور یہ سوالات ایک جمہوری دور ِ حکومت میں ہر باشعور شہری کی زبان پر ہیں کہ کیا ”صحافت آزاد ہے اور کیا وہ صحافی اور نیوز چینل حب الوطنی جن کا طرہ امتیاز ہے سچائی پر اُن کی زباں بندی ایک روایت نہیں بن کر رہ گئی ہمارے آج کا جوب اس سچ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے بول ٹی وی کے اونر شعیب شیخ کو ایک جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ میں پابند ِ سلاسل کرنے کے بعد بول ٹی وی نشریات پر پابندی ،معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کی زباں بندی کے بعداب ایک اور عوامی نیوز چینل ”نیو نیوز ”پر سچائی کے پر چار پر لگنے والی زباں بندی کو محب وطن حلقے سراہنے سے یکسر قاصر ہیںعوامی حلقے اسی سچ دشمنی قرار دے رہے ہیں اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی نے14دسمبر 1946کو59(1)قرار داد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ ”انفارمیشن کی آزادی بنیادی انسانی حق ہے ”انسانی حقوق کے عالمی ڈیکلریشن کی شق 19کے مطابق ”ہر کسی کو رائے اور اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے اس حق کے مطابق کسی طرح کی مداخلت کے بغیر ہر کسی کو اپنی آراء قائم کرنے ،اطلاعات تلاش کرنے حاصل کرنے اور کسی بھی ذریعے سے خیالات دوسروں تک پہنچانے کی آزادی حاصل ہے آزادی اظہار خیال ہر کسی کا بنیادی انسانی حق ہے اور بین الاقوامی سطح پر متعین کئے گئے بنیادی انسانی حقوق پر عمل درآمد کے وقت اس حق کا دلایا جانا بھی بے حد ضروری ہے ”
Western Investment
جدید ذرائع ابلاغ چونکہ برق رفتار، محیط و سیع اور سریع الاثر ہیں اس لیے انکا استعمال چاہے دانستہ ہو یا نا دانستہ انقلابی امکانات کا حامل ہو سکتاہے چونکہ معاصر دنیا کی دو بڑی تہذیبیں یعنی اشتراکیت اور مغربی سرمایہ پرست تہذیب جدیدذرائع ابلاغ عامہ کے تیسری دنیا کو اپنا اسیرو محتاج بنانے میں سرگرم عمل نظر آتی ہیں اس لیے ہمارے لیے یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ وہ خود اپنے ہاں ذرائع ابلاغ کا ستعمال کس طرح کرتی ہیں
دانشوران مغرب کو یقین ہے کہ انکے تمدن کی برتری کی بنیاد فلسفہ آزادی ہے اور چونکہ انہوں نے صدیوں کے تجربے کے بعد ملوکیت اور جمہوریت کو اپنایا ہے اس لیے ان کیلئے انکا تحفظ کسی مذہبی عقیدے سے کم نہیں اب یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ مغرب میں صحافت یا ابلاغ عامہ کو ریاست کا چوتھا ستون کیوں قرار دیا جاتا ہے اور وہاں کے ذرائع ابلاغ کو اس قدر اثرو رسوخ کیوں حاصل ہے کہ انکی تنقید سے برطانیہ کیا شاہی خاندان یا صدر امریکہ محفوظ ہے نہ پاپائے روم
سابق صدر بش کے دور میں ایک امریکی لکھاری میکائل مورنے اپنی کتاب”احمق سفید آدمی” جو فروخت کے لحاظ سے سرفہرست رہی میں لکھا ِکہ امریکہ راہ مستقیم سے ہٹ کر جہالت اور حماقت کی طرف چل پڑا ہے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش چور اعظم ہے جو وفاق امریکہ میں ناجائز طور پر گھس آیا ہے صدارتی دفتر میں اسکا وجود بلا جواز ہے یہ کیسی سرزمیں ہے جہاں شاطر عدالتیں صدر چنتی ہیں اور جہاں صرف دولت سچ کا معیار ہے ” امریکہ جیسے طاقتور ملک کا صدر ملکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہے مصنف نے اسکے خلاف کھل کر سچ لکھا ہے مصنف ٹی وی پر کتاب کے بارے مذاکرات اٹنڈ کرتارہا اور اسکے الفاظ کو کہیں چیلنج نہیں کیا جاسکا
وہاں ذرائع ابلاغ پر کوئی پابندی نہیں وہاں اطلاعات حاصل کرنا اور باخبر دنیا پر فرد کا حق تصور ہوتا ہے اس لیے تمام ذرائع ابلاغ شب و روز قارئین و ناظرین کو سیاست و معیشت،مذہب و تمدن و تفریحات غرضیکہ ہر شعبہ کے بارے نئی معلومات بہم پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں اور اس صورت حال کی بدولت مغربی معاشرہ اپنے آپکو سب سے زیادہ باخبرمعاشرہ تصور کرتا ہے حتیٰ کہ خود ہمیں اکثر اوقات اپنے ملک کے بارے بہت سی معلومات مغربی ممالک کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملتی ہیںعلاوہ ازیں ابلاغیات کے نمائندے کا بھر پور تحفظ ہوتا ہے جیسے ڈینیل پرل کی موت کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ نے مغربی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا جبکہ ہم آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑے ہیں
Journalists
آزادی سے قبل صحافیوں نے وطن عزیز کی آزادی کی خاطر جنگ لڑی انگریزوں کے خلاف 1857میں محمد حسین آزاد کے والدمحمد علی باقر کو آواز بلند کرنے پر سزائے موت دی گئی 1954میں روزنامہ امروز اور پاکستان ٹائمز اس لیے مارشل لاء کی ذد میں آگئے کہ ان اخبارات نے امریکی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے 2فوجی معاہدوں سیٹو اور سنیٹو پر بھر پور تنقید کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں 18اخبارات اور 57میگزین بند ہوئے صحافیوں اور دانشوروں کو کوڑے لگائے گئے 300سے زائد صحافیوں کو قید ہوئی 1947 میں کوہاٹ میں ایک جلسئہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بانیء پاکستان نے یہ ریمارکس دیئے “صحافیوں نے جس جذبے سے تحریک پاکستان کی جنگ لڑی اب وہ اسی جذبے نوزائیدہ مملکت کے لئے دن رات ایک کردیں اور دشمنوں کے اعزائم ناکام بنا دیں ہمارا دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے صحافی اپنے قلم کی قوت سے دشمن کے تمام عزائم ناکام بنادیں” ذرائع ابلاغ میں سے اہم ترین ذریعہ صحافت ہے صحافی اگر اپنے مقام کا شعور رکھتا ہو تو ملک کا ملک اسکی وسیع درس گا ہ ہوتی ہے
قیام پاکستان کے بعدابتدائی گیارہ سالوں میں اور اسکے بعد قلمی مجاہدوں نے سیاسی و سماجی پس منظر میںملکی مسائل کے بارے جو جرات مندانہ موقف اختیار کیا وہ ہماری صحافتی تاریخ کاایک سنہر ی دور ہے صحافیوں نے حریت فکر کے جذبات کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کے قیام کے بعد اس نازک دور میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی ارتعاشات صحافتی قالب میں ڈال کر بلاشبہ گراں قدر خدمات سر انجام دیں انگریزوں کی مسلط کردہ سفاک آمریت کے بعد جب یہاں آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو یہاں ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ عام آدمی آزادی کے ثمرات سے محروم ہوجائے فرنگی کی مسلط کردہ سفاک آمریت میں اور بعد ازاں قلم کی حرمت کو بیچنے والے بھی پیش پیش رہے
بقول معروف صحافی و قلم کار حافظ شفیق الرحمن”نو آبادیاتی عہد میںلٹیرے اور ڈاکوگورے آقائوں کے کتوں کو نہلا کر جاگیر دار بن جایا کرتے تھے اور آزادی کے بعد اکثر قلم کار اور کالم نگار کالے آقائوں کی بوٹ پالش کر کے پرمٹوں،پلاٹوں،پلازوں،پیٹرول پمپوں اور پیٹرول نسانوں کے مالک بن گئے ترغیبات،تحریثات اور بد معاشیات کے علمبردار اس دور میں بھی مٹھی بھر طالع آزما صحافیوں اور معدودے چند اخبارات کو اپنے ہاتھ کی گھڑی اور جیب کی چھڑی بنائے ہوئے تھے”
جبکہ اپنے قلم کو جھوٹ اور خوشامد کی کثافت سے آلودہ ہونے سے بچانے والے تاریخی حقائق اور سماجی شعور کو جس قوت کے ساتھ بیان کر رہے ہیں وہ لائق تحسین ہے ان کے ہاں عوامی جدوجہد اور منصفانہ ماحول کے قیام کے بارے واضح نصب العین موجود ہے انہوں نے زندگی کے تلخ حقائق کی صحیح تصویر کشی کر کے حیات انسانی کی فلاح کی اجتماعی جدوجہد میں قابل جسارت کردار ادا کیا ہے انہوں نے اس دور میں ذاتی احساسات،تجربات اور مشاہدات اور سچ کو اس بے باکی سے الفاظ کے پیرائے میں ڈالا کہ احساس کی شدت سے جبر کے ایوانوں میں لرزا طاری ہے اور یہ حقیقت واضح ہورہی ہے کہ “صحافت وہ عصا ہے جو ہر فرعون کاسر کچلنے پر قادر ہے”
اور یہ بات بلا خوف تردد کہی جا سکتی ہے کہ وطن عزیز کے صحافیوں نے حقائق کی منظر کشی کی جمہوریت کے جبرکے باوجود وہ حالات کے تناظر میں معاشرتی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لے رہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ارتقاء پذیر معاشرہ میں معروضی حالات میں تغیرو تبدل عوامی آرزئوں اور امنگوں کے براہ راست تابع نہیں ہوتا اس تبدیلی میں کئی قوتیں مزاحم ہوتی ہیں عوامی خواہشات اور احساسات کو کچل کر استبدادی قوتیں انقلاب کا راستہ روک دیتی ہیں اور اس طرح معروضی حالت میں فور ی تبدیلی کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں
Journalism
عصر حاضر میں دنیا صحافت میں نام آفتاب کی طرح مطلع صحافت پر جگمگا رہا ہے وہ جری ہیں حق کہنے میں ذرا متامل نا ہوتے وہ ہر ناخیر طاقت کے سامنے سینہ سپر ہیں انکا قلم اس لیے سچ لکھتا اور صدق رقم کرتا تھا کہ قلم مقدس ہے حق تعالیٰ جل شانہ، نے قلم کی قسم کھا کر اسے مقدس و مطہر کر دیااس قلم سے صرف سچ لکھا جانا چاہیے وہ صدق مقال تھے اور صدق رقم کرنا انکا صحافتی کرداران صحافیوں کے لئے سامان شرم ہے جن کے قلم آج فرسودہ اور مال فروخت ہیں
شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ”شروالدواب عنداللہ ہیں وہ لوگ جو قلم کا کاروبار کرتے ہیں بد قسمتی سے ملک کا دانشور طبقہ بالا خانوں کی مخلوق بن گیا انہوں نے جوہر قلم،جوہر زبان کو بازاری جنس کی صورت بخشی انکا خیال ہے کہ انہیں درباروں کی چوکھٹ پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے” حمید نظامینے حاکم وقت کو لکھاکہ”آزادی صحافت کی جنگ لڑتے ہوئے میدان میں یکہ و تنہا رہ جانا افسوس ناک ہے مگر وجہ تفاخر بھی ، ابھی تک آزاد صحافت کا پرچم اس ملک میں سرنگوں نہیں ہوا تو اسکا سہرا انہی بہادر صحافیوں کے سر ہے جنہوں نے اپنے محدود وسائل و ذرائع کے باوجود فسطائی رحجانات سے اندھی طاقتوں کے سامنے ہتھیا ڈالنے سے انکار کر دیا”
بدقسمتی سے وطن عزیز کی انہتر سالہ تاریخ میں سچ کے علمبرداروں کو ہمیشہ جبر کا سامنہ رہا ماضی کی حکومتوں نے ریاست کے چوتھے ستون کو گرانے کی ہر ممکن کوشش کی ہرجمہوری اور عسکری آمر حکمران کے ذہن میں یہ خناس سمایا رہا کہ پریس اس کا مطیع و فرماں بردار بنا رہے لیکن مجاہدانہ کرداروں نے ہمیشہ بغاوت کے ذریعے آمرانہ شخصی خواہش کی بیخ کنی کی وقت کے آمروں نے سچ پر پہرے بٹھانے کی ہر ممکن کوشش کی پریس کی آزادی کو پامال کیا اور نظریاتی اخبارات کو وہ سرکاری نوٹس بورڑ بنانا چاہا جس کی پیشانی محکمانہ سربراہوں کی منشاء کے مطابق صرف چند سرکاری خبریں لکھ کر سیاہ کر دی جاتی ہے
Newspapers
اخبارات ملک و قوم کی آواز ہوتے ہیں اور صحافیوں کی رائے، عوامی جذبات و احساسات کا عکس سمجھی جاتی ہے صحافت کا مقصد ہی یہ ہوتا کہ وہ عوام کی ترجمانی کے فرائض ادا کرے لوگوں کے خیالات حکومت وقت تک پہنچائے حکومت کی پالیسیوں ،عیوب نقائص کی نشاندہی کرے اور ارباب اختیا ر و اقتدار کے سامنے انکی وضاحت کرے جن پر عمل کر کے وہ ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں اور یہ صحافت کے نزدیک ایک ایسا فریضہ ہے جسے وہ ہر حال میں ادا کرنے پر مجبور ہے کیونکہ اگروہ یہ فرض ادا نہ کر سکے تو پھر اسکا وجود اور عدم برابر ہیں محب وطن اور ملک دوست صحافی کسی قیمت پر وہ پابندیاں قبول کرنے کیلئے تیا ر نہیں ہوتے جن سے حقوق آزادی اور صحافت کی افادیت پر زد پڑتی ہو
اس کے برعکس فراخ دل وسیع النظر ملک و قوم کے بہی خواہ اور دانا رہنما و حکمران اس قسم کے صحافیوں اور نقادوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اخبارات کی تنقید کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کرتے ہیں اور ایک آزاد پریس کو وطن عزیز کی بقاء و استحکام کیلئے ضروری اور نیک فعل تصور کرتے ہیں کیونکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خود غرض،مداح،مفاد پرست اور حاشیہ نشیں صحافی حکمرانوں کو غلط راہ پر ڈالنے کا موجب بنتے ہیں اور بالآخر اس کے نتیجے میں ملک و قوم اور خود ارباب اختیار تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی کے ایسے عمیق گڑھے میں جا گرتے ہیں جس سے نکلنا ان کے بس کی بات نہیں رہتی کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وطن عزیز کی 68سالہ عمر میں اس کے نا خدا اس حقیقت سے آنکھیں بند کر کے پریس کا گلہ گھونٹنے پر تلے رہے اور صحافت کو پابندیوں کی ایک طویل زنجیر میں جکڑ کر اپنے گرد ہمیشہ حاشیہ نشینوںکی ایک ایسی کھیپ تیار کرتے رہے جو ان ہی کے اشاروں پر کام کرے اور صحافت محض His master’s voiceبن کر رہ جائے۔ ارباب اختیا ر و اقتدار کے اس طرز عمل نے انہیں کسی طرح ملک و قوم کی نگاہوں میں سر بلند نہیں کیا بلکہ ہر محب وطن پاکستانی اس انداز حکمرانی سے اختلاف کرتا رہا کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جہاں بے حیائی، بدمعاشی ،قومی نمائندوں اور بیوروکریٹس کی کرپشن اور لوٹ مار پر کوئی پابندی نہ ہو وہاں پریس کو ہی اس کی حق گوئی و بے باکی پر مورد الزام ٹھہرانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے
Press and Nation rise and fall together ملٹن نے کہا تھا ”مجھے کسی بھی طرح کی آزادیوں سے بڑھ کر جاننے اور بولنے کی آزادی دیجئے آزادانہ اپنے ضمیر کے مطابق دلائل دینے دیجئے ” نیو نیوز پر لگنے والی پابندی در اصل در اصل ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی سزا ہے اور موجودہ حکومت کا ماضی گواہ ہے کہ حکومت خود پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو اپنا بد ترین دشمن قرار دیتی ہے پیمرا کا یہ اقدام آزادی اظہار کو پابند سلاسل کرنے کے مترادف ہے