آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریز اپنے دور حکومت میں اگر کسی شخص کو نوکری دیتے تھے تو وہ نوکری دینے سے قبل اُس شخص کے خاندان اور اُس کے ذاتی کردار کی مکمل چھان بین کرتے تھے جس کے نتیجہ میں وہ شخص اپنے خاندان کی عزت وقار کے حصول کی خا طر اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر عدل و انصاف کی تاریخ رقم کرتا تھا تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ اُس وقت کے دور میں ایک پولیس کا اعلی آ فیسر جس کا تعلق سادات خاندان سے تھا اپنے فرائض و منصبی کی ادائیگی کے بعد دفتر سے گھر کی جانب اپنی پرائیویٹ کار پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ اسی دوران اُسے ایک کانسٹیبل جو بخار کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے سڑک پر گر گیا تھا نظر آیا جسے دیکھ کر پولیس کے اُس اعلی آ فیسر نے اپنی گاڑی رکوائی اور اپنے ڈرائیور کی مدد سے اُس کانسٹیبل جو کہ نیم بیہوشی کی حالت میں مبتلا تھا کو اٹھا کر اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر سیدھا ہسپتال کی جانب روانہ ہو گیا جہاں پر پہنچ کر مذکورہ اعلی آ فیسر نے کانسٹیبل کی صحت یابی کیلئے ڈاکٹروں کی فوج کھڑی کر دی۔
ڈاکٹروں کی انتھک کاوشوں کے بعد مذکورہ کانسٹیبل کو تقریبا چار گھنٹے کے بعد ہوش آیا جسے ہوش میں آتے دیکھ کر مذکورہ اعلی آفیسر نے اُس کانسٹیبل کو پانچ ہزار روپے نقدی کے علاوہ اپنا وزٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ اگر مذید کسی چیز کی ضرورت ہو تو میرے وزٹنگ کارڈ پر درج نمبرز پر فون کر لینا میں انشاء اللہ تعالی آپ کی مدد کیلئے پہنچ جائوں گا مذکورہ کانسٹیبل نے جب وزٹنگ کارڈ کو دیکھا جس پر ڈی آئی جھی پولیس درج تھا تو اُس نے اپنے اعلی آ فیسر کو سلام کرنے کیلئے فوری بیڈ پر سے اٹھنے کی کوشش کی تو مذکورہ اعلی آ فیسر نے یہ کہہ کر اُسے اٹھنے سے منع کر دیا کہ عزت دل میں ہونی چاہیے افسوس کہ آج ہمارے ملک جسے اسلام کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے میں اعلی افسران ماتحت عملہ کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم اچھوتوں کو آپ جانتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں چونکہ وہ از خود قانون شکن خاندان کے ساتھ ساتھ کرپشن کی پیداوار ہوتے ہیں اور یہاں یہ امر قابل ذکر ہے اور اگر کسی کو یہ نوکری دیتے ہیں تو وہ میرٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بلکہ نوٹوں کی چمک سے مرعوب ہو کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ماتحت عملہ اعلی افسران کو دی گئی رشوت کی رقم کی واپسی کیلئے لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہی کیفیت ہمارے ملک کے سیاست دانوں کی بھی ہے جو اپنے اپنے علاقے کی غریب بیوہ بیمار و لاغر افراد کے ساتھ ساتھ یتیم بچوں اور بچیوں کی کفالت پر چند روپے خرچ کرنے کے بجائے سیاسی پارٹیوں کے فنڈز میں کروڑوں روپے دیکر سیاسی ٹکٹ حاصل کرتے ہیں اور بعد ازاں سیاسی کامیابی حاصل کر کے تعمیر وترقی کے فنڈز جو کہ کروڑوں روپے ہوتے ہیں از خود ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر قبضے من پسند اعلی افسران کے تقرر و تبادلوں کی مد میں ملنے والے کروڑوں روپے یہاں تک کہ سرکاری نوکریوں کی مد میں ملنے والے کروڑوں روپے از خود ہڑپ کر جاتے ہیں جبکہ دوسری جانبان کے سیاسی قائدین ان کی لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی ذرہ بھر پرواہ محض اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں یہ مفاد پرست سیاست دان ملکر ان کی حکومت کو نہ گرا دیں اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہ مفاد پرست سیاست دان وہ ناسور ہیں جو ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک وقوم کا خون چوسنے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارا ملک جس کے حصول کی خا طر ہمارے بزرگوں نے لاتعداد قربانیاں دی تھیں آج ان ناسوروں کی لوٹ مار کی وجہ سے بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے۔
جبکہ یہاں کی عوام روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشیاں کر رہی ہیں تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ گزشتہ دنوں مجھے معلوم ہوا کہ جھنگ کے ضلعی چیرمین نواب بابر علی خان سیال جو کئی سالوں سے کروڑوں اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے اُن کی آ مدن از خود ہڑپ کر رہا تھا کہ اسی دوران پی ٹی آئی کی حکومت نے مذکورہ چیرمین کے خلاف کاروائی کر کے اُن سرکاری زمینوں کو واگذار کروا لیا ہے نے اپنے دیگر متعدد ساتھیوں کے ہمراہ پی ٹی آئی کی حکومت میں شمولیت اختیار کر لی ہے اس معلومات کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ یہ تو وہی سیاست دان ہے کہ جہنوں نے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کے حصول کی خا طر مسلم لیگ ن کے قائدین کو کروڑوں روپے فنڈز دیئے تھے اور جو ہمیشہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں تھے کہ نواز شریف اور شہباز شریف قدم بڑھائو ہم تمھارے ساتھ ہیں آج اگر اُن پر بُرا وقت آیا تو یہ بھی اپنے سیاسی قائدین سے طوطے کی طرح آنکھیں چرا رہے ہیں۔
ان کے اس اقدام سے واضح ہو گیا کہ یہ مفاد پرست سیاست دان بُرا وقت آنے پر نہ صرف اپنے سیاسی قائدین بلکہ ملک وقوم سے بھی طوطے کی طرح آ نکھیں پھیر لیتے ہیں جن سے وفاداری کی توقع رکھنا بس ایک دیوانے کا خواب ہے بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کے علمائے دین جو نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو کر غریب عوام کو جنت کی ٹکٹ دینے کا لالچ دیکر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خا طر کئی حصوں میں تقسیم کر کے حکم خداوندی کو ٹھکرانے میں مصروف عمل ہیں حالانکہ خداوندکریم نے قرآن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے تمام عبادات سے افضل عبادت حقوق العباد کو قرار دیا ہے۔
حقوق العباد کے معنی ہیں عزیز و اقارب سے پیارو محبت پڑوسی کی جان و مال اور عزت کا تحفظ بھائی چارے کی فضا کو بر قرار رکھنا بیمار و لاغر افراد کی معاونت کرنا یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کرنا قصہ مختصر انسانیت کی خدمت کرنا ہم سب مسلمانوں پر واجب ہے جس سے ہم کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں یہی ہمارے مفاد پرست علمائے دین ہیں جو اپنی پاور شو کرنے کیلئے گلی گلی کو چہ کو چہ میں مختلف ناموں کی مساجدیں تعمیر کروانے میں مصروف عمل ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ ملک کے کسی مقام پر چلے جائیں آپ کو دیو بندی اہل تشیعہ اہلحدیث وغیرہ کی مساجدیں نظر آئے گی لیکن خداوندکریم کی مسجد آپ کو نظر نہیں آئے گی تو آج میں یہاں پورے پاکستان کی عوام سے پوچھتا ہوں کہ کوئی مجھے یہ بتا دے کہ فلاں علمائے دین سنت نبوی کے مطابق زندگی گزار رہا ہے اور اگر ایسا کوئی نہ ہو تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم تفرقہ بازی میں پڑنے کے بجائے حقوق العباد کے معنی پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی گزارے اس سے دنیا بھی سنور جائے گی اور آ خرت بھی۔