سونامی ان ایکشن

Inflation

Inflation

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر

سونامی طوفان کا نام ہے اور طوفان کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ وہ بلاامتیاز اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔ سونامی کی تباہ کاریاں جاری ہیں لیکن اب کی بار اُس کا نشانہ کپتان کی تحریکِ انصاف ہے۔ ہر روز نئی نئی خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ اِس عیدالفطر پر تو کئی وزیرشزیر سونامی کی زَد میں آ کر باہم گُتھم گُتھا ہوگئے۔ خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور خیال یہی تھا کہ اِس بار پاکستان میں ایک ہی عید ہوگی لیکن پشاور کی مسجد کے مولانا شہاب الدین پوپلزئی آڑے آگئے۔ غالباََ کے پی کے حکومت نے اُنہیں کہا ہوگا کہ اب کی بار اُن کی ہدایت پر ہی سرکاری سطح پر عید کا اعلان کیا جائے گااِس لیے عید کا چاند دیکھنے والوں کی تعداد بڑھا دیں۔ پوپلزئی صاحب نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، اکٹھی سینچری ہی مار ڈالی اور اعلان کر دیا کہ 100 سے زائد لوگ عید کا چاند دیکھ چکے اِس لیے 4 جون کو عید ہوگی۔ پوپلزئی کے اعلان کے مطابق کے پی کے حکومت نے عید کا اعلان کر دیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں خیبرپختونخوا کے عوام کی غالب اکثریت نے 28 روزوں کے بعد ہی عید منا لی۔ شاید کپتان عوام کو ”اپنی”ریاستِ مدینہ کی ایک جھلک دکھانا چاہتے ہوں کیونکہ خیبرپخونخوا کے وزیرِاطلاعات کے مطابق عید کا اعلان وزیرِاعظم صاحب کی ایماء پر ہوا۔ سوال مگر یہ کہ کیا وزیرِاعظم صاحب نے خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ، وزراء اور مولانا شہاب الدین پوپلزئی سے پوچھا کہ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا؟ کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فوادچودھری تو کہتے ہیں کہ چاند کے نظر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب جھوٹا کون ہے اور کس پر آرٹیکل 62-1F کا اطلاق ہونا چاہیے، اِس کا فیصلہ کپتان خود کر لیں۔

فواد چودھری نے کہا ”پیر کو چاند کا نظر آنا ممکن ہی نہیں تھا۔ پختونخوا میں عید کی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی، جہالت کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ دنیا میں جھوٹ کو سرکاری سرپرستی کا تاثر گیا”۔ فوادچودھری تو پہلے ہی پانچ سال کا قمری کیلنڈر تیار کروا چکا تھا اور اُس نے رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن اور قاسم مسجد کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو دعوت بھی دی تھی کہ وہ دونوں آکر چاند کی گردش دیکھ لیں لیکن ”مفتیان” بھلا کس کی سنتے ہیں۔ فوادچودھری کے جواب میں پختونخوا کے وزیرِاطلاعات شوکت یوسف زئی نے کہا ”مفتی فواد حکومت اور علماء کو ٹارگٹ نہ کریں بلکہ اپنے کام پر توجہ دیں، عید کا اعلان وزیرِاعظم کے مشورے سے کیا گیا”۔ شوکت یوسف زئی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مفتی منیب الرحمٰن رویتِ ہلال کمیٹی سے الگ ہو جائیں۔ پختونخوا میں چونکہ عید کا اعلان وزیرِاعظم کے مشورے سے کیا گیا اِس لیے مشیرِاطلاعات فردوس عاشق اعوان کا بیان تو بنتا تھا۔ اُس نے کہا ”فواد میرا بھائی ہے، وہ” نو بال” پر چھکے مارتا ہے۔ اُسے سمجھائیں گے کہ کریز کے اندر کھیلے، کریز سے باہر نکل کر چھکے نہ مارے۔ اگلے سال کوشش ہوگی ملک میں ایک عید ہو”۔ مفتی منیب الرحمٰن دور کی کوڑی لائے۔ اُنہوں نے کہا ”دو عیدیں آج کی بات نہیں، یہ سلسلہ قیامِ پاکستان سے چلا آرہا ہے۔

مجھے اِس بات پر حیرت ہوئی ہے کہ جس پارٹی کی وفاق میں حکومت ہے، وہ صوبے میں سرکاری سطح پر انحراف کر رہی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے”۔ بجا ارشاد! لیکن اِس میں جتنا قصور حکومت کا ہے، اُتنا ہی ”مفتیان” کا بھی ہے۔ منیب الرحمٰن اور شہاب الدین، دونوں کے ساتھ ہی مفتی کا سابقہ بھی لگا ہے۔ دونوں کا تعلق پختونخوا سے ہے اور دونوں میں سے ایک یقیناََ جھوٹا بھی ہے۔ اب قوم کِس ”مفتی” کی پیروی کرے؟۔ مفتی منیب الرحمٰن چونکہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ہیں، پورے پاکستان سے مختلف مکاتیبِ فکر کے علماء رویتِ ہلال کمیٹی کے ارکان ہیں اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی محکمہ موسمیات سے ایک حد تک استفادہ بھی کرتی ہے اِسی لیے عوام کی غالب اکثریت مذہبی تہواروں کے معاملے میں رویت ہلال کمیٹی ہی کی پیروی کرتی ہے لیکن مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہمیشہ اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ رہتے ہیں۔ دینی تہواروں پر قوم کو دو حصّوں میں بانٹنے جیسے قبیح فعل پر اُنہیں کِس نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے؟۔ مفتی منیب الرحمٰن کی ”چھٹی” کروانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا مُنہ بند کیا جائے تاکہ قوم ایک ہی عید منا سکے۔

بات ہو رہی تھی سونامی اِن ایکشن کی تو عرض ہے کہ جب وزیرِاعظم صاحب کے کنٹرول میں اُن کی اپنی حکومتیں ہی نہیں تو پھر ملک کیا خاک ترقی کرے گا۔ پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی مضبوط ترین حکومت ہے لیکن عالم یہ کہ خود حکومت ہی گروہوں میں بٹی ہوئی۔ پختونخوا کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے سابق وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کا انتخاب کوئی اور تھا لیکن قرعہ فال نکلا محمودخاں کے حق میں۔ وزیرِاعلیٰ نے 4جون کو گورنر ہاؤس میں عید کی نماز ادا کی لیکن گورنر پختونخوا نے عید کی نماز 5 جون کو پڑھی۔ خود وزیرِاعلیٰ کے آبائی علاقے میں لوگوں نے 5 جون کو نمازِ عید ادا کی۔ یہی نہیں بلکہ پختونخوا کے کئی شہروں میں حکومتی اعلان کے برعکس 5 جون کو ہی نمازِعید ادا کی گئی۔ فوادچودھری کا پختونخوا حکومت کو جھوٹا کہنا اور دَر جوابِ آں غزل پختونخوا کے وزیرِاطلاعات شوکت یوسف زئی کا اُن پر ”مفتی فواد” جیسی طنز کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے اندر سب اچھا نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کچھ بھی اچھا نہیں کیونکہ شاہ محمودقریشی اور جہانگیر ترین جیسے متحارب گروپ تو پہلے ہی سے موجود ہیں۔

اب یہ چھوٹے چھوٹے گروپ بھی پیدا ہو رہے ہیں جن سے تحریکِ انصاف کو ضعف تو پہنچ ہی رہا ہے، ملک وقوم کی بربادی کے قصّے بھی زباں زدِعام ہیں۔ تحریکِ انصاف کے اندر عید پر چھڑ جانے والی اِس لفظی جنگ کے بارے میں لال حویلی والا کہتا ہے ”گندے کپڑے سرِعام نہیں، گھر کے اندر دھونے چاہییں”۔ مشورہ تو اچھا ہے لیکن جب ملک کا وزیرِاعظم ہی پوری دنیا میں چور چور، ڈاکو ڈاکو کی گردان کرتا پھرے تو پھر حواری لامحالہ وہی کچھ کریں گے جو وہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ پہلے اپوزیشن کے خلاف تیغِ آبدار فوادچودھری کے ہاتھ میں تھی، اب یہ منصب فردوس عاشق اعوان نے سنبھال لیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فردوس عاشق سے بہتر تو فوادچودھری ہی تھا جس کی باتوں میں کچھ ”لاجک” تو نظر آتی تھی۔ یہ محترمہ تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے گنڈاسا ہاتھ میں لیے اپوزیشن کے شکار پر نکلی ہوں۔ اُدھر اپوزیشن بھی فردوس عاشق اعوان کی باتوں سے محظوظ ہوتی رہتی ہے۔ شرارتی رانا ثناء اللہ فیصل آبادی بار بار کہتے رہتے ہیں کہ باجی فردوس عاشق صاحبہ کم از کم وہ بسیں تو واپس کر دیں جو پیپلزپارٹی کے دَور میں گھر لے گئی تھیں۔ مشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان یوں تو وہ ہر وقت نیوزچینلز پر دکھائی دیتی رہتی ہیںلیکن اُنہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ بسوں کا قصّہ کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی مناسب وقت کے انتظارمیں ہوں کیونکہ قاف لیگ سے پیپلزپارٹی اور پھر پیپلزپارٹی سے تحریکِ انصاف تک اُن کا سفر ابھی تمام نہیں ہوا۔ دروغ بَرگردنِ راوی فردوس باجی نے تحریکِ انصاف میں شمولیت سے پہلے کئی بار دَرِ نوازکھٹکٹایا لیکن شنوائی نہیں ہوئی اِس لیے اُنہیں مجبوراََ تحریکِ انصاف جوائن کرنی پڑی۔

مہنگائی کا سونامی مجبوروں کو تقریباََ نگل چکا، رہی سہی کسر 11 جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ نکال دے گا۔ اِسی لیے اپوزیشن سڑکوں پر نکلنے سے پہلے بجٹ کے انتظار میں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن تو شاید بجٹ سے پہلے ہی کھڑا ک کر دیتے کیونکہ اُنہیں بھی کپتان کی طرح جلدی ہی بہت ہوتی ہے لیکن پیپلزپارٹی اور نوازلیگ نے اُنہیں ”حلوہ” ٹھنڈا کرکے کھانے کا مشورہ دیا جسے مولانا نے طوہاََ وکرہاََ قبول کر لیا۔ سونامیوں نے سوشل میڈیا پر شور تو بہت مچایا اور حمزہ شہباز کے حوالے سے یہ طنز بھی کیا ”ابّا نَس گیا، تایا پھَس گیا” لیکن اب ”اَبّا” سونامیوں کے سینوں پر مونگ دَلنے واپس آرہا ہے۔ انتظار کریں میاں شہبازشریف اُس وقت پاکستان میں ہوںگے جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے۔ رہی ”تایا” کی بات تو عرض ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے برہان مظفروانی کی شہادت پر عمرعبداللہ نے کہا تھا ”زندہ برہان وانی سے قبر میں لیٹا برہان وانی زیادہ خطرناک ہے”۔ اِسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ جاتی اُمرا میں بیٹھے ”تائے” سے کوٹ لکھپت جیل میں بیٹھا ”تایا” کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر