اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان متعدد مرتبہ کہہ چکا ہے کہ پاکستانی طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔ اس ضمن میں افغان طالبان پاکستانی مطالبے کے حوالے سے تفتیش کے حق میں ہیں۔
افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پاکستان کی طرف سے کئی بار یہ اشارے کیے گئے ہیں کہ افغان طالبان پاکستانی طالبان کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کریں۔
ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ افغان طالبان نے ایک کمیشن بنا دیا ہے، جو ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کی شکایات کی تحقیق و تفتیش کرے گا۔ لیکن پاکستان میں کئی حلقے یہ بحث بھی کر رہے ہیں کہ آیا افغان طالبان ٹی ٹی پی، جو ان کے نظریاتی بھائی ہیں، کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات کریں گے۔
اس حوالے سے جب ڈی ڈبلیو نے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب سے رابطہ کیا تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا۔ “مجھے انتہائی قابل اعتبار ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے کہا تھا۔ افغان طالبان کا کہنا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی سے کہیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرے، اپنے آپ کو غیر مسلح کرے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرے۔‘‘
جنرل امجد شیعب کے بقول اب ایک کمیشن بھی اس حوالے سے بنایا گیا ہے۔ “اس کمیشن کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے تھے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ مذاکرات ہوئے ہیں یا نہیں۔‘‘
کئی ناقدین کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان کبھی بھی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے کیونکہ وہ ان کے نظریاتی بھائی ہیں اور پاکستانی حکام صرف اپنے دل کو بہلا رہے ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار مختار باچا، جن کی افغان امور پر بہت گہری نظر ہے، کہتے ہیں کہ ماضی میں ٹی ٹی پی کے امیر افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرتے رہے ہیں اور ابھی نور ولی محسود نے بھی افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔
مختار باچا کے بقول یہ ممکن ہے کہ کچھ چھوٹے لیول کے جنگجوؤں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے لیکن ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی بالکل ناممکن ہے، “اس کے لئے ہمیں جہادیوں کی نظریاتی سوچ کا بھی جائزہ لینا ہوگا، جس کے مطابق ٹی ٹی پی کے جنگجو اس وقت مہاجرین ہیں اور افغان طالبان اپنے آپ کو انصار کہتے ہیں، افغان طالبان نے ماضی میں اسی بنیاد پر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا تھا۔ ان کے خیال میں ٹی ٹی پی نے ان کے ساتھ امریکہ کے خلاف جنگ کر کے امارت اسلامی پر احسان کیا ہے۔‘‘
خیبر پختونخواہ کے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عطااللہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان طالبان کی حمایت کی ہے اور اگر افغان طالبان چاہیں تو وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف بالکل ایکشن لے سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “پاکستان نے نوے کی دہائی میں بھی طالبان کی حمایت کی تھی اور اس وقت بھی وہ خطے میں ان کا سب سے بڑا حامی ہے۔ افغان طالبان اس وقت مضبوط ہیں اور ٹی ٹی پی والے کمزور ہیں اور ان کو اس بات کا پابند کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی مسلح کارروائی نہ کریں۔‘‘
عطاء اللہ خان کے بقول، “ماضی میں پاکستانی طالبان نے ملک میں ریاست کے خلاف لڑائی کی، جس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا تو یقینا پاکستان کا یہی مطالبہ ہے کہ پاکستانی طالبان کو غیر مسلح کیا جائے اور کسی بھی طرح پاکستان میں کوئی مسلح جد وجہد نہ ہو۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد نہ کریں۔‘‘
حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے سارے مطالبات اس وقت مان لیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “لیکن اگر پاکستانی حکومت کسی سطح پر ان سے یہ کہہ رہی ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لیا جائے تو یہ ایک مثبت بات ہے۔ تاہم میرے خیال میں افغان طالبان خود بھی بہت سارے مسائل کا شکار ہیں، موجودہ حالات میں پاکستان کو افغان طالبان سے کم از کم یہ مطالبہ ضرور منوا لینا چاہیے کہ افغانستان کی طرف سے کوئی کراس بارڈر حملہ پاکستان میں نہ ہو۔‘‘