تیونس (جیوڈیسک) مسلمان ملک تیونس نے تمام سرکاری دفاتر میں خواتین کے چہرے کے مکمل پردے یا نقاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وزیراعظم یوسف شاہد کے مطابق یہ فیصلہ سلامتی کے خدشات کے باعث کیا گیا ہے۔
شمالی افریقی ملک تیونس کے دارالحکومت میں جون کے آواخر میں ہونے والے دو خودکش حملوں کے بعد وزیراعظم یوسف شاہد ملک بھر کی سرکاری عمارتوں میں خواتین کے نقاب کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان حملوں میں دو افراد ہلاک جبکہ دیگر سات زخمی ہو گئے تھے۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”حکومت نے عوامی انتظامیہ اور سرکاری اداروں تک ایسی تمام خواتین کی رسائی روک دی ہے، جنہوں نے نقاب کیا ہو گا۔ یہ فیصلہ سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔‘‘
گزشتہ جمعرات کو تیونس میں حملوں کے ماسٹر مائنڈ نے دارالحکومت کے مضافات میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا تاکہ وہ گرفتاری سے بچ سکے۔ عینی شاہدین کے مطابق اس مبینہ ملزم نے خود کو بچانے کے لیے ایک برقعہ پہن رکھا تھا۔
تیونس حکومت نے فروری 2014ء میں پولیس کو ہدایات جاری کی تھیں کہ مکمل نقاب کرنے والوں پر سخت نگاہ رکھی جائے۔ یہ حکم نامہ بھی انسداد دہشت گردی کے لیے جاری کیا گیا تھا تاکہ دہشت گردی میں ملوث افراد بھیس بدل کر فرار ہونے میں کامیاب نہ ہوں۔
تیونس میں نقاب اور اس طرح کے دیگر لباسوں پر سیکولر صدر زین العابدین بن علی کے دور حکومت میں پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن سن 2011 میں بن علی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے نقاب کرنے کی دوبارہ اجازت فراہم کر دی گئی تھی۔
اس پابندی کے جواب میں تیونس کے عوام نے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایک لڑکی الہم کا دارالحکومت تیونس میں نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”موجودہ صورتحال کے پیش نظر انہیں اس پر پابندی عائد کرنے کا حق پہنچتا ہے۔‘‘
ایک دوسری خاتون لینا کا کہنا تھا، ” سوال یہ ہے کہ جب بھی سکیورٹی خدشات پیدا ہوتے ہیں تو خواتین کو ہی کیوں قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے؟‘‘
تیونس میں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فیصلہ عارضی ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم کے سربراہ جمیل مصالم کا کہنا تھا، ”ہم لباس کی آزادی کے حق میں ہیں لیکن موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کے خطرے کے باعث حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کا حق پہنچتا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جونہی سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی ہے، اس پابندی کو ختم ہو جانا چاہیے۔ ماضی میں سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی نقاب پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔