تیونس (جیوڈیسک) تیونس کے پارلیمنٹ میں “بچوں کے اندر اسلامی عرب شناخت پیدا کرنے” کے قانون کے حوالے سے بڑے تنازع نے جنم لے لیا ہے۔ اس حوالے سے النہضہ موومنٹ کے ارکان پارلیمنٹ اور ان کے ہم منصب اپوزیشن ارکان کے درمیان شدید اختلاف کے سبب جمعرات کے روز منعقد ہونے والے اجلاس اور قانون پر بحث کو ملتوی کر دیا گیا۔
اس تنازع کی ابتدا اس وقت ہوئی جب پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی النہضہ موومنٹ جمعرات کے روز اس قانون سے متعلق قرار داد میں “بچوں میں اسلامی عرب شناخت کو راسخ کرنے” کی ضرورت کے حوالے سے تائید حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ،،، اور اس کی حمایت میں صرف 35 ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ آئے۔ اپوزیشن گروپوں اس کومسترد کر دیا کیوں کہ ان کے نزدیک یہ تجویز آئین میں موجود سول اسٹیٹ کے خلاف ہے۔
اس تجویز کے ساقط کیے جانے کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ اس دوران النہضہ موومنٹ کی جانب سے اپوزیشن ارکان پر اسلام عداوت کا الزام عائد کیا گیا۔ اس طرح ریاست کی شناخت اور معاشرے کے مذہب کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
دوسری جانب ڈیموکریٹک بلاک کی رکن پارلیمنٹ سامیہ عبو نے النہضہ موومنٹ کے پارلیمانی بلاک سے مطالبہ کیا کہ وہ نفرت آمیز تقاریر اور فتنہ پھیلانے پر اکسانے کے سبب تیونس کے لوگوں سے معذرت کریں۔ اسی بلاک کے ایک دوسرے رکن پارلیمنٹ سالم الابیض نے کہا کہ مذہب کسی کی ملکیت نہیں اور اسلام اکیلے اسلام پسندوں کے لیے نہیں ہے۔
یہ تنازع سوشل میڈیا تک پہنچ گیا جہاں بہت سے تونسیوں کا کہنا ہے کہ بچوں میں اسلامی عرب شناخت کی جڑیں لگانا یہ آئین کے عین مطابق ہے جب کہ بعض دیگر حلقوں نے اسے سول اسٹیٹ کے خلاف قرار دیا۔
بعض حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ اسلام پسند اس بحث کو بھڑکا کر تنازع پیدا کرنا چاہتے ہیں اور النہضہ موومنٹ نے دانستہ طور پر جمعرات کے اجلاس میں اپنے ارکان پارلیمنٹ کو غیر حاضر رہنے کو کہا تا کہ اس قانون کا سقوط ہو جائے اور ملک میں انتخابات سے قبل ایک بار پھر مذہب کے نام پر شناخت کا مسئلہ اٹھایا جا سکے۔