تیونس (اصل میڈیا ڈیسک) صدر قیس سعید نے پر تشدد مظاہروں کے بعد وزیر اعظم ہشام مشیشی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ حکمراں جماعت صدر پر بغاوت کا الزام عائد کر رہی ہے۔
تیونس کے صدر قیس سعید نے 25 جولائی اتوار کے روز ملک کے وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرنے کے بعد کہا کہ اب وہ ملک کے انتظامی اختیارات خود ہی سنبھالیں گے۔ یہ نئی سیاسی معرکہ آرائی اتوار کے روز حکومت مخالف پر تشدد مظاہروں کے بعد شروع ہوئی جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے تھے۔
نئی پیش رفت پر صدر نے کیا کہا؟ صدر قیس سعید نے وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرنے کے بعد کہا کہ وہ ایک نئے چیف کی سربراہی والی حکومت کی مدد سے انتظامی امور کا اقتدار خود ہی سنبھال لیں گے اور اس نئے چیف کی تقرری بھی وہ خود کریں گے۔
صدر قیس سعید نے تیونس کی پارلیمان کو بھی آئندہ ایک ماہ تک کے لیے معطل کرنے اور تمام نائبین کے اختیارات کو بھی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی فوری خطرے کے پیش نظر آئین کی دفعہ 80 کے تحت انہیں ایسے احکامات صادر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
انہوں نے کہا، ”آئین میں پارلیمان کو تحلیل کرنے کی اجازت نہیں ہے تاہم ایوان کی کارروائی معطل کرنے کی اجازت ہے۔”
صدر کے اعلان کے فوری بعد سینکڑوں لوگ خوشی سے سڑکوں پر نکل آئے جو حکومت کی برطرفی کا جشن منا رہے تھے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس افراتفری کے دوران ہی فوج نے پارلیمان کی عمارت کا بھی محاصرہ کر لیا ہے۔
گرچہ صدر قیس سعید نے اپنے ان اقدامات کو آئین کے مطابق ہونے کا دعوی کیا تاہم پارلیمان کے اسپیکر راشد غنوشی نے صدر پر، ”انقلاب اور ملکی آئین کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کیا۔”
غنوشی کی معتدل اسلامی جماعت النہضہ نے ان کا جو ویڈیو پیغام پوسٹ کیا ہے اس میں انہوں نے تیونس کی عوام سے اس ”بغاوت” کے خلاف مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
اس سے قبل اتوار کے روز ہی ہزاروں مظاہرین کووڈ 19 کی وجہ سے عائد بندشوں کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر نکلے اور حکمراں جماعت اور وزیر اعظم کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ باہر نکلو اور پارلیمان کو تحلیل کر دو۔ مظاہرین میں سے بہت سے پتھر بازی کر رہے تھے جس کی وجہ سے پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا۔
بہت سے مظاہرین النہضہ پارٹی کے دفتر میں بھی گھس گئے جو وزیر اعظم مشیشی کی ایک اتحادی جماعت ہے۔ ان مظاہروں کے پس منظر میں صدر قیس نے کہا، ”منافقت، غداری اور عوام کے حقوق سلب کر کے بہت سارے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”میں خبردار کرتا ہوں کہ اگر کسی نے ہتھیار اٹھایا، اور کوئی بھی اگر گولی چلاتا ہے تو پھر فوج بھی اس کو گولی سے ہی جواب دے گی۔”
تیونس میں سن 2011 کے انقلاب کے بعد سے ہی سیاسی عدم استحکام جاری ہے جس کی وجہ سے زین العابدین بن علی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ سیاسی رہنما ایسی حکومتیں قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو دیر پا ہوں۔ گزشتہ ایک برس سے بھی کم عرصے میں ہشام مشیشی کی یہ تیسری حکومت تھی۔
شمالی افریقی ملک تیونس میں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کی وجہ سے عائد بندشوں سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں اور لوگوں
میں کافی بے چینی ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ تقریباً ایک برس سے صدر قیس سعید اور مشیشی کے درمیان سیاسی چپقلش جاری تھی۔