تیونس: وزیراعظم یوسف شاہد معطل، حکمراں جماعت میں جاری رسہ کشی میں شدت

Yousuf Shah

Yousuf Shah

یونس (جیوڈیسک) تیونس کی حکمراں جماعت ندا ء تونس نے وزیراعظم یوسف شاہد کو معطل کردیا ہے اور ان کا معاملہ مزید کارروائی کے لیے انضباطی کمیٹی کے سپرد کردیا ہے۔

وزیراعظم یوسف شاہد اور تیونسی صدر الباجی قائد السبسی کے بیٹے حافظ قائد السبسی کے درمیان گذشتہ کئی ماہ سے محاذ آرائی جاری ہے ۔حافظ السبسی حکمراں جماعت نداء تونس کے سربراہ ہیں اور وہ وزیراعظم کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔

یوسف شاہد نے جمعہ کو ندا تونس کی قیادت کے درمیان باہمی چپقلش پر کڑی نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ اس باہمی آویزش کے نتیجے میں ان کی حکومت کی ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

انھوں نے ایک پالیسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ثانوی سیاسی تنازعات حکومت کے کام میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔ان کی وجہ سے حکومت کو اصلاحات کا عمل روکنا اور اقتصادی شرح نمو کے لیے درکار ضروری فیصلے واپس لینا پڑے ہیں‘‘۔

صدر السبسی نے خود بھی اقتدار کے لیےاس رسہ کشی کے دوران میں جولائی میں وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔انھیں تیونس کی طاقتور ٹریڈ یونین کنفیڈریشن یو جی ٹی ٹی کی بھی حمایت حاصل ہوگئی تھی کیونکہ یوسف شاہد اپنی معاشی اصلاحات کے تحت بجٹ میں کفایت شعاری کے اقدامات متعارف کرارہے تھے اور سرکاری اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہتے ہیں لیکن ٹریڈ یونین کنفیڈریشن نے ان دونوں اقدامات کی مخالفت کی تھی۔

تاہم پارلیمان میں دوسری بڑی جماعت النہضہ نے یوسف شاہد کو ہٹانے کی تحریک کی مخالفت کی تھی اور اس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے وزیراعظم کا بدستور اقتدار میں رہنا ضروری ہے۔

حکمراں جماعت کے تمام ارکان بھی یوسف شاہد کو ہٹانے کے حق میں نہیں۔ وہ خود بھی جماعت کے اندر اپنا ایک دھڑا بنانے یا کم سے کم اپنے ہم نواؤں کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق انھیں ندا ء تونس کے پارلیمان میں چالیس ارکان کی حمایت حاصل ہے۔اب اس جماعت میں ایسے وقت میں نئی چپقلش شروع ہوئی ہے جب حکومت کو وسط اکتوبر سے قبل نئے مال سال 2019ء کا بجٹ پیش کرنا ہے۔

یوسف شاہد نے اگست 2016ء میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ تیونس میں 2011ء میں عرب بہاریہ تحریک کے نتیجے میں برپا شدہ ا نقلاب کے بعد ساتویں وزیراعظم ہیں ۔ وہ ان تمام وزراء اعظم میں سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہے ہیں۔

تیونس میں اس سال افراط ِ زر کی شرح 7.8 فی صد رہنے اور بے روزگاری کی شرح 15 فی صد سے کچھ زیادہ رہنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکمراں جماعت اور وزیراعظم کے درمیان محاذ آرائی جاری رہتی ہے تو پھر حکومت نئے بجٹ میں بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں دینے اور افراط زر کی شرح کو کم کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کرسکے گی۔

تیونس میں سابق مطلق العنان صدر زین العابدین بن علی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پُرامن انداز میں انتقال اقددار کا عمل طے پایا تھا اورا س کو عرب بہاریہ تحریکوں کی سب سے کامیاب کہانی قرار دیا گیا تھا لیکن جن مقاصد کے حصول کے لیے یہ عوامی ا نقلاب برپا ہوا تھا،ان میں سے اب تک ایک بھی پورا نہیں ہوا ہے کیونکہ شمالی افریقا میں واقع اس ملک میں بے روزگاری کی شرح جوں کی توں برقرار ہے، غربت کا دور دورہ ہے۔ عام شہری نان شبینہ کو ترس رہے ہیں اور انتہا پسند جنگجو بھی وقفے وقفے سے سکیورٹی فورسز یا عام شہریوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔