تقریباََ نو ماہ پہلے ترکی کے دارلحکومت استنبول میں ایک تنازع پیدا ہوا۔ یہ تنازع ایک نئی لیکن بڑے تعمیراتی منصوبے پر تھاجہاں ایک ایسا عوامی پارک تھا جہاںہر ایک کو ہر طرح کی آزادی حاصل تھی۔ہر طرح کی اخلاقی وانسانی پابندیوں سے آزاد زندگی گزارنے والے یہاںسر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اس پارک کو ختم کر کے یہاں بڑی مسجد سمیت بننے والا منصوبہ آگے نہیں بڑھنے دیں۔
ساری دنیا ان کی حمایت میں تھی کیونکہ ان کے حامی اس بات سے بہت پریشان تھے کہ ترکی جہاں تیزی سے ترقی کر کے آگے سے آگے بڑھ رہا ہے وہیںترکی میں اسلام سے محبت میں اضافہ اور اسلامی اقدار کی طرف عوام کا رجحان ہر روز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ان دنوں عالمی میڈیا میں ہنگامہ دیکھ کر یو ںلگتا تھا کہ طیب اردوان کی حکومت ”اب گئی ،کہ اب گئی”۔لیکن اردوان نے اس سب پر قابو پا لیا۔پھر حکومت کے خلاف کرپشن کا بہت بڑا سکینڈل آیا ۔اردوان اور ان کی پارٹی کو بدنا م کرنے میں لادین قوتیں اورسیکولر عناصر دنیا بھر میں سرگرم تھے اور کہہ رہے تھے کہ طیب اردوان اور ان کی پارٹی کا تو خاتمہ ہو گیا ہے۔پھر ساتھ ہی فتح اللہ گولین کا ایک نیا تماشہ کھڑا ہو گیا ۔یہ تماشہ اس وقت سامنے آیا جب انتخابات عین سر پر تھے۔دنیا بھر کے سیکولر اب یہ گردان پڑھ رہے تھے کہ طیب اردوان کا اب قصہ ختم ہو چکا۔یہ کچھ پاکستان میں کچھ لوگ لکھ لکھ کر خوشیاں منا رہے تھے لیکن…ترکی کے عوام طیب اردوان کی پارٹی کو ریکارڈ حمایت دے کر ثابت کر دیا کہ وہ اسلام سے محبت کرتے اور کمال اتاترک سے بے زاری کا اعلان کرتے ہیں۔
یہ کما ل اتا ترک کون تھا کہ جس کی ہر بات کا آج ترکی سے جنازہ نکل رہا ہے۔نام تو اس کا بھی مصطفی تھا لیکن… تاریخ میں وہ جو کچھ کر گیا اس نے کروڑوں انسانوں کو محسن انسانیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کر دیا اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کی ساڑھے تیرہ سو سالہ خلافت اسلامیہ کے خاتمہ کا ناپاک اقدام بھی اپنے نام کر گیا۔ مصطفی کمال اتاترک… جسے جدید ترکی کا بانی و رہبر کہا جاتا ہے، تاریخ کی ستم ظریفی نے اسے ”اتاترک” یعنی ”ترکوں کا باپ” بنا دیا اور جس کے نام کا ڈنکا گزشتہ 80سال سے بج رہا تھا، اس کے اپنے ہی دیس میں گزشتہ دس سال سے اس کا نام تیزی سے مٹ رہا ہے۔
کمال اتاترک 19مئی 1881ء کو سالونیکا میں پیدا ہوا تھا جو اب یونان میں شامل ہے۔ بچپن ہی سے ذہین و فطین تھا،لیکن اسلام سے بیزاری وہ اپنے ساتھ لے کر ہوش سنبھال رہا تھا، سکول میں بھی اس نے بچوں کی یونین بھی بنا لی تھی۔ 1905ء میں اس نے فوج میں بطور لیفٹیننٹ شمولیت اختیار کی، پانچ سال کے عرصہ میں وہ ترقی کرتا ہوا بڑے عہدے تک پہنچ گیا اور پھر اپنی طرح مذہب بیزار قسم کے اعلیٰ افسروں کو ساتھ ملا کر اس وقت کے عثمانی خلیفہ عبدالحمید ثانی کو بے اثر کرنے کیلئے میدان میں اتر پڑا۔ فوج ان کی پشت پر تھی۔ خلیفہ ڈر سے خلافت سے دستبردار ہو گیا اور کمال اتاترک کے گروپ کا ڈنکا بجنے لگا۔ پہلی جنگ عظیم میں صلیبی اتحادی افواج نے ترکی پر حملہ کر دیا۔ کمال اتاترک نے اس جنگ کی قیادت کی اور بچے کھچے ترکی خصوصاً اناطولیہ کو یورپ کے اس بڑے وار سے بچا لیا۔
Turkish Army
ترک قوم نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف یہ کوئی پہلی کامیابی حاصل نہیں کی تھی، اس سے قبل لگ بھگ 300سال تک یورپ کے کئی ملکوں کی افواج کبھی تنہا تو کبھی اتحاد بنا کر میدان میں اترتیں لیکن وہ خلافت و سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ نہ کر سکیں۔ اس سارے خطے خصوصاً یورپ میں ترکی ہی تو وہ ملک تھاجس نے آسٹریا کے قلب تک اپنی سلطنت کو پھیلا دیا تھا اور یہی قلق اہل یورپ کو صدیوں سے چین نہ لینے دیتا تھا۔ بہرحال پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا اتحادی ہوتے ہوئے ترکی کو شکست ہوئی تو فاتحین نے انتقام میں ترکی کے حصے بخرے کر لئے مگر 1919ـ20ء کی جنگ میں فتح نے کمال اتاترک کو ملک کا ہیرو بنایا تو اس نے بھی ملک پر مکمل قبضے کی تیاری کر لی۔ اس کیلئے فوج اور اس کے جرنیلوں کو اس نے پہلے ہی ہمنوالہ و ہم پیالہ بنا رکھا تھا ،خلیفہ تو کئی سال سے برائے نام تھا۔ اسی دوران کمال اتاترک نے گرینڈ اسمبلی تشکیل دی اور پھر یکم نومبر 1923ء کو اقتدار پر قبضہ کر کے اگلے سال 2 مارچ کو خلافت ختم کر دی اور آخری عثمانی خلیفہ عبدالمجید ثانی کو ملک بدر کر کے اپنی جمہوری آمریت کی بنیاد رکھی۔کمال اتاترک شروع ہی سے رنگین مزاج اور اسلام دشمن تھا۔شراب تو اس کی گھٹی میں تھی، حتیٰ کہ اس کی موت کا سب سے بڑا سبب بھی کثرت نوشی بنی کیونکہ اس سے اس کا جگر ناکارہ ہو گیا تھا۔
کمال اتاترک چونکہ اسلامی خلافت کے خاتمے کی بنیاد بنا تھا ،سو اس نے اسلام کی ایک ایک پہچان کو ترکی سے بے دخل کرنا شروع کیا۔ علماء کا قتل عام کیا، بے شمار مساجد کی تالہ بندی کی، نئی مساجد کی تعمیر پر مکمل پابندی لگائی۔بہت سی مساجد کو عجائب گھر بنایا۔ مدارس بند کر کے دینی تعلیم پر مکمل پابندی عائد لی۔حد تو یہ کہ عربی زبان میں اذان اور عربی تعلیم پرپابندی عائد کر دی۔کسی کو قمیص، شلوار یا پتلون سے باہر رکھنے کی اجازت نہ تھی، بلکہ اسے پینٹ، پاجامے کے اندر ڈالنے کا حکم تھا۔خواتین کے حجاب پر پابندی لگائی، شراب کو عام کیا، مردوں کیلئے بڑے کناروں والا ہیٹ پہننا لازمی قرار دے دیا تاکہ وہ نماز ادا اور سجدہ نہ کرسکیں۔عربی رسم الخط پر پابندی لگا کر ترکی زبان کا لاطینی رسم الخط رائج کر دیا۔ وہ طاقت کا مرکز و محور تھا۔ فوج کو اس نے خوب نوازا اور فوج کو اسی راستے پر چلا دیا۔ اسی طرح 65سال بیتے، ترک کی فوج کا مزاج وہی رہا، حتیٰ کہ ترکی نے جاگنا شروع کیا۔ کرتے کرتے 2002ء کا زمانہ آ گیا اور ملک کی حکومت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (عدل و کمال پارٹیسی)نے سنبھالی اور رجب طیب اردوان وزیراعظم بنے تو انہوں نے نئے ترکی کی بنیادرکھی اور ایسی حکمت عملی سے قدم اٹھائے کہ لادین و اسلام دشمن فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ ایک ایک فیصلے میں درجنوں اسلام دشمن جرنیل نکال باہر کئے یا وہ خود بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔
اردوان نے ترقی و اصلاحات کا ایسا دور شروع کیا کہ 10سال میں یورپ کا مرد بیمار ترکی دنیا کی چند بڑی معاشی طاقتوں میں شمار ہونے لگا۔ خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے مسلم نسل کشی کی مہم کا خاتمہ کیا تو یورپ جو آج انسانی قوت کی کمی کا شکار ہے، اس کو ترکی افرادی قوت مہیا کر رہا ہے۔ترکی نے تو آئی ایم ایف سے بھی ہمیشہ کیلئے جان چھڑا لی ہے۔ موجودہ ترک وزیراعظم دوسری مرتبہ 2007ئاور پھر تیسری مرتبہ 2011ء میں منتخب ہوئے۔ انہوں نے ہر بار پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کی۔ انہوں نے جب مساجد پر پابندی ختم کی، سرعام شراب نوشی و خریدوفروخت پر پابندی لگائی اور سپیکرز پر اذانیں شروع کیں اور اتاترک کی جانب سے عائد شعائر اسلامی پر عائد پابندیاں ختم کیں تو یہی ان کا جرم لگنے لگا۔
اسلام سے محبت کا دم بھرنے والا آج کا ترکی دنیا میں مظلوم و مقہور مسلمانوں کے سر پر ہاتھ رکھ رہا ہے۔دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں پر کوئی آفت ٹوٹے یا مظالم ہوں تو ترکی کا دل ان کے غم میں برابر دھڑکتا ہے۔ پاکستان کے زلزلہ زدگان ہوں یا سیلاب زدگان، ترکی کی مدد سب کے سامنے ہے۔ برما میں مسلمانوں پر مظالم ہوئے تو ترک وزیراعظم کی اہلیہ اپنے بیٹے کو لے کر مظلوم مسلمانوں کے پاس پہنچ گئیں اور ان کی آج تک ہر ممکن مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔کمال اتاترک کا مقبرہ آج ویران ہے۔وہاں پر آنے والے ترک تواب سینکڑوں میں رہ گئے ہیں، یعنی اس کے ساتھ تقریباً وہی صورتحال ہے جو اس کو اپنا مرشد کہنے والے پرویز مشرف کے ساتھ بنی ہے۔ کمال اتاترک کا باطل نظریہ ٹھوکروں سے پاش پاش ہے اور حق سچ سب کے سامنے ہے۔