ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اس ستائیس ملکی بلاک سے بھی یکساں ‘خیرسگالی‘ کی امید کرتے ہیں۔
رجب طیب ایردوآن نے یورپی یونین کے سفیروں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ ترکی یورپی یونین کے ساتھ طویل بنیادوں پر مثبت پیش رفت کے لیے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے جو باہمی مفادات کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔
ایردوآن کی بعض خارجہ پالیسیوں کے نتیجے میں جہاں ترکی سے برسلز کی ناراضگی بڑھ گئی ہے وہیں مشرقی بحیرہ روم میں یونان کے ساتھ اور لیبیا اور مشرق وسطی کے معاملے پر فرانس کے ساتھ تعلقا ت کشیدہ ہیں۔ تاہم یورپ کی طرف سے پابندی عائد کیے جانے اور امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی جانب سے سخت موقف اختیار کیے جانے کے خدشے سے دوچار صدر ایردوآن نے انقرہ میں یورپی یونین کے سفیروں کے ساتھ بات چیت کے دوران مفاہمتی رویے کا اظہار کیا۔
رجب طیب اردوان نے سفیروں کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا ”ہم اپنے باہمی تعلقات کو دوبارہ واپس لانے کے لیے تیار ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارے یورپی دوست بھی اسی طرح کی خیر سگالی کا مظاہرہ کریں گے۔”
ترک صدر کا کہنا تھا”ہم طویل بنیادوں پر مثبت پیش رفت کے لیے یورپ سے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں جو کہ باہمی مفادات کے مظہر ہوں گے۔”
ترکی اور یونان اپنے دیرینہ سمندری سرحدی تنازعے کو 25 جنوری کو استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے دوران حل کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ نیٹو کے دونوں حریف پڑوسیوں کے درمیان سن 2016 کے بعد یہ پہلے مذاکرات ہوں گے۔ تقریباً چودہ برسوں کے دوران ساٹھ دور کی ناکام میٹنگوں کے بعد سن 2016 میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔
ایردوآن نے کہا ”ہمیں امید ہے کہ یونان کے ساتھ استنبول میٹنگ کے بعد ایک نئے دور کا آغا ز ہوگا۔”
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
اردوان نے مزید کہا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ گزشتہ کئی مہینوں کے دوران ذاتی تلخی کے باوجود وہ پیرس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایردوآن نے کہا ”ہم فرانس کے ساتھ اپنے تعلقات کو کشیدگی سے بچانا چاہتے ہیں۔ ”
مشرقی بحیرہ روم کے متنازعہ علاقے میں انقرہ کے یک طرفہ اقدامات کے سبب گزشتہ ماہ جب یورپی یونین کے رہنماوں نے ترکی پر پابندیوں کا عندیہ دیا تھا اس کے بعد سے ہی اردوان کے لہجے میں نرمی پیدا ہونی شروع ہوگئی تھی۔ ان تادیبی اقدامات کی وجہ سے ترکی کی اقتصادی پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں اور وزیر اعظم نیز صدر کے طور پر اٹھارہ برس تک اقتدار پر رہنے کے باوجود ایردوآن کی مقبولیت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
انقرہ اور یورپی یونین کے عہدیدار سفارت کاری کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں جس سے ان کے باہمی تعلقات مزید مثبت راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش گلو یورپی کمیشن کے سربراہ ارسلا فان ڈیئر لائن سے ملاقات کے لیے اکیس جنوری کو برسلز جا رہے ہیں جبکہ یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اس ماہ کے اواخر میں ترکی کا دورہ کرنے والے ہیں۔
تعلقات کو خوشگوار بنانے کا راستہ بہر حال آسان نظر نہیں آتاہے اور برسوں کی باہمی عدم اعتمادی اس کی راہ میں آڑے آسکتی ہے۔
فرانسیسی یورپی وزیر کلیمانت بوین نے منگل کے روز کہا کہ”ہم ترکی کی جانب سے ملنے والے اشارے اور بیانات دیکھ رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ماضی میں بھی ہم اس طرح کے ڈرامے دیکھ چکے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے سخت موقف کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں اورآنے والے دنوں اور ہفتوں میں ترکی عہدیداروں کے خلاف یورپی یونین کی طرف سے پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
ایردوآن کا کہنا تھا کہ ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں کا باضابطہ آغازسن 2005 میں کیا تھا لیکن وہ معطل ہوگئیں تاہم ”دوہرے میعار اور ناانصافی کے باوجود ہم نے مکمل رکنیت کا اپنا ہدف کبھی بھی ترک نہیں کیا ہے۔” انہوں نے کہا کہ’’سال 2021 کو ترکی۔ یورپی یونین کے تعلقات کے لیے کامیابی کا سال بنانا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔“