جس وقت ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے مدینہ میں اسلامی فلاحی جمہوری ریاست قائم کی تو اس اسلامی جمہورت میں حاکمیت کا حق اللہ کا نہ کہ عوام کا، آزادی اظہار رائے ،خزانہ عوام کی ملکیت،امور مملکت باہمی مشورے سے چلانے، دنیا میں اللہ کے قلمے کو بلند کرنے کے ماٹو اور تقویٰ کی بنیاد پر لیڈر شپ کا منتخب کرنے کا معیار قائم کیا۔رسول ۖ اللہ نے اللہ کا پیغام اللہ کے بنددوں تک پہنچانے کا کام کر دیکھایا ۔دنیا میں ہمیشہ خرابی کی جڑ سیکولرحکومتیں ہوتی ںہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے اسلامی خط و خال پر مبنی اسلامی جمہوری حکومت کو پسند کیا ہے۔ دنیا میں اس معیار کو قائم رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو اللہ کے رسولۖ اورصحابہ نے کمال درجے پر قائم رکھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ (ہال) میں آزاد رائے شماری سے خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر کو منتخب کیا گیا۔ جسے اُس وقت کی پوری مملکت اسلامیہ نے تسلیم کر لیا۔اپنی پہلی تقریر میں خلیفہ اوّل نہ کہا، کہ اگر میں نے آپ کو صحیح راستے پر نہ چلایا تو آپ کیا کریں گے؟ عوام نے کہا کہ ہم آپ کو پکڑ کر سیدھا کر دیں گے۔ مسلمانوں کے خلیفہ اوّل نے اپنا کپڑے کاروبار چھوڑ کر معمولی وظیفہ پر خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پھر اسی پر چاروںخلفاء راشدین کار بند رہے۔گو کہ اس کے بعد اسلامی جمہوری خلافت کے بجائے بادشاہت قائم ہوئی۔ مگر مسلمانوں میں تڑپ روح وہ ہی موجود رہی جس پر خود رسولۖ اللہ اور خلفاء راشدین چلتے تھے۔ پھر مسلمانوں کی خلافت بنو امیّہ سے بنو عباس اور عثمانی خلفاء تک پہنچی۔مسلمانوں کی ہزار سالہ شاندار دور حکمرانی کے بعد ان میں کمزرویاں پیدا ہونے لگیں۔ وہ شمشیر و سناں چھوڑ کر طائوس رباب میں غرق ہو گئے۔ یقینا! شاعر اسلام علامہ اقبال نے ایسے ہی دور کے لیے کہا تھا:۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں ،تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و ساناں اول،طائوس و رباب آخر
اب ١٩٢٣ء کے معاہدے کی طرف آتے ہیں۔مسلمانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خلافت عثمانیہ صرف ترکی تک معدود نہیں تھی۔ یہ خلافت ترکی کے علاوہ،افریقہ،ایشیاء اور یورپ کے کچھ حصہ تک تھی۔ پہلی جنگ عظیم جب ١٩١٨ء میں ختم ہوئی تو صلیبیوں اور ترکوں میں معاہدہ ہوا۔ جسے بعد میں ٢٤ جولائی١٩٢٣ء کوسوئٹزر لینڈ کے شہرلوسا کے مقام پردوسری بار ذبردستی سے١٠٠ سالہ معاہدہ کیا۔ جس میں فاتح ممالک، برطانیہِ، آئر لینڈ،فرانس، روس اور اٹلی اور مغلوب ترک اسمت انو نو نے دستخط کیے۔ اس ذبردستی کے معاہدے کی شرائط کچھ طرح تھیں۔
نمبر ١:۔ اسلامی خلافت کو ختم کیا جائے گا اس کی جگہ سیکولر ریاست قائم کی جائے گی۔ نمبر٢:۔ مسلمانوں کے خلیفہ کو ملک بدر کیا جائے گا۔ اس کے سارے اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے۔
نمبر ٣:۔ترکی اپنے ملک کے حصے موصل وغیرہ میں بھی تیل کے ذخائر نہیں نکال سکے گا۔ نمبر٤:۔ترکی اپنے سمندروں سے گزرنے والا بحری جہازوں سے فیس بھی نہیں وصول کرے گا۔
چناں چہ ان شرائط پر عمل کرتے ہوئے مصطفی کمال اتاترک نے سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی۔ خلیفہ اور اسلام کو ترکی سے نکال دیا۔ اسلام کے سارے نشانات مٹا دیے۔ یاد رہے کہ اس سے کچھ عرصہ قبل ایک یہودی لیڈڑ ہر زل نے ترکی کے خلیفہ کو فلسطین حاصل کرنے کے لیے پیسوں کی پیش کش کی تھی۔ مسلمانوں کے خلیفہ سلطان محمد نے اس ٹھکرا کر کہا تھا میں جب تک میں زندہ ہوں فلسطین کی مٹی بھی یہودوں کو نہیں دوں گا۔ ١٩٢٣ء کے معاہدے کے وقت صلیبیوں نے اسی یہودی لیڈر ہرزل کے ہاتھوں خلیفہ کی معزولی کا پروانہ بھیجاتھا۔ پھر صلیبیوں نے ترکی کی عثمانی خلافت کے مسلمان ملکوں کو آپس میں بانٹ لیا ۔ کچھ کے ساتھ معاہدے کر مسلمان پٹھو بادشاہوں میں تقسیم کر دیا۔ جو آج بھی ٥٧ راجوڑوں کی شکل میں موجود ہیں۔عراق، اردن اور فلسطین برطانیہ کے کنٹرول میں ،شام ، لبنان ، الجزائراور لیبیا فرانس کے کنٹرول میں دے دیے۔اناطولیہ اور آرمینیا کو ترکی سے کاٹ کر آزاد ملک بنا دیا گیا۔ترکی سے یورپ کے علاقے بھی چھین لیے۔
اب ٢٠٢٣ء میں سو(١٠٠) سالہ رسوائے زمانہ ذبردستی کا معاہدہ ختم ہو رہا ہے۔ اس پر دنیا میں بعث چل پڑی ہے۔ مگر اسلامی دنیا خاص کر اسلامی ملکوں کے حکمران اور عوام سوئے ہوئے ہیں۔ ان کو اپنا ہزار سالہ شاندار دور حکمرانی یاد کرانے کے لیے اس کالم کو تحریر کی شکل دی گئی۔ کہ مسلمان اپنے شاندار دور حکومت کو یا د کریں۔ ماضی سے سبق سیکھیں۔جیسے مسلمانوں کے پہلے خلیفہ نے عام مسلمانوں کے معیار کو چیک کرنے کے لیے اُن کے سامنے سوال رکھا تھاکہ اگر میںعوام کے درمیان اللہ اور رسولۖ کے احکامات کے خلاف حکومت کروں تو آپ کیا کریں؟ تو عوام نے کہا تھا کہ ایسی صورت میں ہم آپ کو پکڑ کر سیدھے راستے پر لگا دیں گے۔ کیا اِس دور کے مسلمان حکمران اللہ اور رسول ۖ کے احکامات کے مطابق حکومت کر رہے ہیں؟کیا عوام نے ان کو سیدھے راستے پر چلانے کے اپنا ووٹ کا حق صحیح استعما ل کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تو آئندہ آنے والے انتخابات میں ایسا کرنے کا ارادہ کر لیا ہے!
ترکی کے مرد مومن صدر ارگان نے تو اس کا اعلان کر دیا ہے۔ ترکی کے عوام نے بھی مصطفےٰ کمال اَتاترک جیسی پرانی سیکولر روش پر چلنے والی فوج کہ جنہوں نے مرد مومن ارگان کی اسلام کی سمت بڑھنے والی حکومت ختم کر کے مارشل لاء لانے کی کوشش کی تھی۔ ہوائی جہازوں، ٹینکوں اور پیدل فوج کو عوام کے مقابل لے آئے تھے۔ مگر اسلام کے شیدائی عوام نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر ارگان کی اسلام کی طرف گامزن حکومت کو بچا لیا۔ کیا دوسرے اسلامی ملکوں کے حکمران اور عوام ترکی کی اس سنت پر عمل پیراہونے کے لیے تیار ہیں؟
ایسے ہی معاہدے فتح پانے والوں اور ہارنے والی قوموں کے درمیان ہوتے رہے ہیں۔ چین اور جرمن قوم سے لڑائی جیتنے کے بعد سامراجیوں نے ایسے معاہدے کیے تھے۔ برطانیہ نے پر امن طریقے سے چین کے ملک ہانگ گانگ کو واپس کر دیا۔ جرمنی کومشرقی اور مغربی جرمنی میں باٹنے والے سامراج کا معاہدہ ٢٠ برس پہلے ہی ختم ہو گیا۔ سویٹ روس کی افغان مجائدین سے شکست کی وجہ سے وہ آپس میں مل گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی یورپ کے ممالک بھی سفید ریچھ سے جان چھڑا چکے ۔اب ترکی بھی حق بجانب ہے کہ جن حقوق کو صلیبیوں نے ہڑپ کیا وہ واپس لے۔ترکی کے تیل والے علاقے ، موصل وغیرہ ترکی کو واپس ملنے چاہییں۔وہ اپنی معدنیات کو خود استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس کے سمندروں سے گزنے والے بحری جہازوں سے فیس لینے کا حق رکھتا ہے۔ خاص کر اپنے ملک میں اپنے عوام کی خواہشات،مزاج اور امنگوں کے مطابق پھر سے خلافت قائم کرنے کا حق۔ذبر دستی ٹھونسے گئی صلیبیوں کے طرز حکومت جمہوری سیکورلزم کی بجائے حقوق و فرائض پر مبنی اسلامی جمہوری خلافت کے اجرا کا حق رکھتا ہے۔ یہ مغربی جمہوری سیکولر حکومت وہی ہے نا،جسے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے:۔
تونے کیا دیکھا نہیںمغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن،اندرون چیگیز سے تاریک تر
ترکی کے ارگان نے اپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ ثابت کر دیاہے۔فلسطین میں غزا کے محصور مسلمانوں کے لیے امداد سے لدھے بحری جہاز بھیجے۔ انسانیت دشمن، اسرائیل نے جہاز کے پرامن لوگوں پر فوج کشی کی اور اُن کو شہید کیا۔بعد میں اس ظلم پر ترکی سے معافی مانگی۔ برماکے مسلمانوں پر ظلم ہوا تو ان کی مدد لے لیے برما پہنچ گئے۔ بنگلہ دیش حکومت کو برما کے مہاجرین ،کی امداد کی کھل کر پیش کش کی۔ بنگلہ دیش کی بھارت کی پٹھو وحشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے ،پاکستان کو بچانے کے لیے پاکستان کی فوج کا ساتھ دینے والے، دوقومی نظریہ کے محافظوں کو طے شدہ سہ فریقی معاہدے کوتوڑتے ہوئے، جعلی یوڈنیشنل ٹربیونل کے ذریعے پھانسیاں دیں۔ ترکی واحد اسلامی ملک تھا جس نے احتجاج کرتے ہوئے بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ بھارت کے کشمیر کے مظالم پر کھل کر بھارت کو للکارا، کہ ترکی کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے ساتھ ہے۔ قوام متحدہ میں کھل کر مسلمانوں کی حمایت کی۔ ان اقدامات کی وجہ سے دنیا کے اسلامی ملکوں کے عوام اردگان کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ ترکی اور اسلامی ملکوں کے عوام اردگان کی ترکی میں خلافت قائم کرنے کے عزم کے ساتھ ہیں۔ برطانیہ نے جیسے چین کو پر امن طور پر ہانگ کانگ واپس کر دیا۔ دنیا نے جرمنی کے عوام کو ایک دوسرے سے ملنے دیا۔جنوبی اور شمالی کوریا کو بھی ملنے کا حق دینا شروع کیا ۔ایسا ہی ترکی کا بھی حق ہے کہ٢٠٢٣ء میں ترکی اور صلیبیوں کا١٠٠ سالہ ذلت کامعاہدہ ختم ہونے پر اپنے عوام کی مرضی کے مطابق اپنے ملک ترکی میں خلافت کا نظام قائم کرے۔ اسلامی دنیا ترک بھائیوں کے ساتھ ہے۔