تحریر : محمد سلمان آفاق الله اکبر کے نعرے ترکی کے سڑکوں په تھے،باچھیں پاکستان میں میری کهل رہی تهیں۔ بی بی سی پہ دیکھ رہا تهااقبال کے مسلمان کو طوفانِ مغرب نے مسلمان کردیا تھا. افراد کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر تھی اورجمہور کی خودی تاریخ بنا رہی تھی. میں ذوق انقلاب سے معموراُس ملت کی نئی شباب دیکھ رہا تھا کہ پاکستانی چینل لگایا۔دانشور قلابے مارتے برادراسلامی جمہوری ملک کہتے تو ایمان جگمگا جاتا۔ جانتے بوجھتے کہ کہاں پاکستان جہاں غلبہﺀ خرافات و روایات۔ فکرِگستاخ جہاں سننا دیکھنا بھی ناگوار۔ ندرت سے اغراض اخلاق کے اعلیٰ ترین معیار۔ کہاں ترکی ایک خالصتاََ سیکولر ملک، سکہ رائج الوقت مغربی نظام،صرف رہنے والےمسلمان
پهر بھی ایک کیفیت تھی کہ ان گارڈروں سے طاری ہوجاتی۔ یا تو ہمارے چینل مسلم دنیا کے ا،ب سے لاواقف ياجذباتی لوریاں سنا کے ٹی آر پی بڑھانے کےاستاد، دور کی ہانکتے رہے۔آدها سچ باہر آرہاتها توزہراورقند مکس ہورہا تها اور پراۓ کو اپنا بناۓ جارہے تهے۔ میرےدانشوروں کیا ڈھینگیں مارتے ہو۔ ترک کارِ جہاں بانی سے آشنا لوگ۔ جب ١١ ستمبر١٦٨٣ کو ویانہ کا محاصرہ کرتے ہیں تو یورپ کو حواس باختہ کردیتے ہیں۔ ہماری عقلوں کی حد یہ کہ١١ستمبر کو ایک ٹاور خراش زدہ کر کے پیر پہ اس طرح کلہاڑی مارتے ہیں، کہ درد ہے ابهی تک جاتا نہیں۔
ایک انگلینڈ تها جس سے جمہوریت کے کچھ پرزے رہ گۓ ورنہ ہماری تووہ جہالت پهیلانے والی ملا ملٹری اشرافیہ کمپلیکس کہ خود محلوں میں رہتی ہے، غریب جهونپڑی میں، پھر بهی سب انصاف نظرآتاہے۔ ترک ایک جیتی جاگتی فاتح قوم۔ ہماری قوم برصغیر میں جینے مرنے والی۔ وہ بھی دوسروں کی غلامی میں۔غوری مسلم انڈیا کا بانی خود ترک، مغلیہ سلطنت کا بانی بابرترک۔پهر انگریزوں کے غلام۔آج اشرافیہ اور فوجیوں کے غلام۔۔
Turkey
اپنی آزادی سےابھی تک ناواقف ہم تاریخ کے خواشی، وہ تاریخ کے راقم۔ ترک وقت کے ساتھ چلنے والےلوگ، ہم زبردستی پیچهے چلنے والے۔ترک قوم فیصلوں کا اختیارامت کو دے کےنئی دنیا کی طرف جاتی ہے، ہم عثمانی خاندانی خلافت بچاؤ تحریک چلاتےہیں۔اورانگلستانی غلامی میں اس امت کے خلاف لڑتے ہیں۔ آج جب وہ امت اپنی اقتدار کا پھر سے کهلم کهلااظہار کرتی ہے، ہماری قوم کے اقتدار کا مسئلہ قرونِ وسطیٰ میں اٹکا ہے۔ پهر بھی ایک کیفیت تھی کہ ان گارڈروں سے طاری ہوجاتی۔ تیونس سے لےکے لیبیا۔ لیبیا سے لے کے مصر،شام او یمن کے اللہ اکبر،ترکی کے اللہ اکبر سے اتنے ہی مختلف ہیں جتنے مریخ سے مشتری۔اُسے اپنا نہ کہو۔تحریر سکواير میں لوگ غل غپاڑہ بهی کرتے تو جنونی اللہ اکبر۔ دیوانہ وار آگ بهی لگا تے تو االلہ اکبر۔
پاکستان کے اللہ اکبر کے نیچے بے انصافی،کرپشن اورانتہا پسندی بکتی ہے۔ کوڑوں،قتل اورفرقہ واریت کا کاروبارہوتا ہے۔ جاہلیت اورعام مسلمان کے جذبات کی سودی بازی ہوتی ہے۔ پاکستان کے اللہ اکبر کے نیچے صرف سکرٹ نہیں بکتی کہ وہ ہمیں نظر آجاتی ہے، باقی کیا کچھ نہیں ہوتا خداراسچ بتاؤ۔اس ملک کے غریب کے ایمان اورزندگی کا تو ہم نے کچومر نکال دیا اور وہ بهی اس میں خوش ہے۔ ترکی میں سکرٹ بهی تها، سیکولرزم بهی لیکن اسلام دشمنوں کےآنکهوں ميں آنکهیں ڈال کے وه اللہ اکبر تها کہ دل خوش ہوگیا۔ کہاں ترکی کا اللہ اکبر، کہاں پاکستان کا اللہ اکبر۔
ان کو کمپئیرنہ کرو۔ ترک آج ہر مسلمان ملک سے خوشحال،پرسکون اور متحدہیں۔ آج ترکی کے سیکولر نظام ميں ایک خلیفہ کے بجاۓ ہر شخص اللہ کا خلیفہ اور انصاف کا نگہبان ہے۔آج ترکی ميں اسلام اور زيادہ مضبوط ہوا ہے۔آج جب ہم مسیحا کے انتظار میں ہیں، وہ اپنی مسیحا خود ہیں۔ پاکستان میں ترکی نظام آيا تو یہ دو ٹکے کے دانشوراورسارے جغادری رہبرایک دن بهی نہ ٹِک سکيں۔ قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام