اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان نے اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے ترک وزیر خارجہ مولود کاوس اوغلو سے وعدہ کیا ہے کہ امریکا میں مقیم ترک عالم فتح اللہ گولن کی تحریک سے مبینہ طور پر وابستہ اسکولوں کے نیٹ ورک کے بارے میں تحقیقات کی جائے گی اور اگر ان کا گولن تحریک سے کوئی تعلق ثابت ہوجاتا ہے تو انھیں بند کرنے پر غور کیا جائے گا۔
ترک وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں سوموار کے روز پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کی ہے اور ان سے دوطرفہ تعلقات اور ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت کے حوالے سے امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ”فتح اللہ گولن کے دہشت گرد گروپ پر پابندی عاید کی جانی چاہیے۔یہ کوئی سربستہ راز نہیں ہے کہ اس تنظیم کے پاکستان اور دوسرے ممالک میں ادارے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اس ضمن میں ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ہمیں اس طرح کی تنظیموں اور ان سے ہر ملک کی سلامتی اور استحکام کو لاحق خطرات کے بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا”۔
سرتاج عزیز نے ترکی کو جمہوریت اور آزادی کی فتح پر مبارک باد دی اور کہا پاکستان ان اسکولوں کے معاملات کو دیکھے گا اور توقع ہے کہ یہ کھلیں رہیں گے کیونکہ ان کا بہتر طریقے سے انتظام چلایا جارہا ہے اور وہاں اچھی تعلیم دی جارہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم ان اسکولوں کے لیے ایک متبادل بندوبست پر غور کریں گے جبکہ ان کی دوسری سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور ان پر پابندی عاید کردی جائے گی۔
مولود کاوس اوغلو نے ان کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ ترکی کو فتح اللہ گولن تحریک کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان کا مکمل تعاون حاصل ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس ضمن میں ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ ”حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے اور بغاوت کرنے والوں کے خلاف تمام ضروری قانونی اقدامات کیے جارہے ہیں۔فتح اللہ گولن دہشت گرد تنظیم کا اسکولوں ،کاروباری اداروں اور ثقافتی تنظیموں کا دنیا بھر میں ایک نیٹ ورک موجود ہے۔ماضی میں ہم ان کی حمایت کرتے رہے ہیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا کوئی خفیہ ایجنڈا بھی ہے اور وہ فوجی بغاوت کے ذریعے ترکی میں اقتدار پر قبضے کی کوشش کررہے ہیں۔اس گروپ کی جانب سے اس طرح کی پہلی کوشش دسمبر 2013ء میں کی گئی تھی”۔
تنازعہ کشمیر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مولود کاوس اوغلو نے کہا کہ ”ترکی پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کرتا ہے۔انھوں نے اسلامی کانفرنس تنظیم کے سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کہ وہ او آئی سی کے کشمیر پر رابطہ گروپ کو متحرک کریں اور بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں حقائق اکٹھا کرنے کے لیے ایک مشن کو بھیجیں”۔
انھوں نے کہا کہ ”ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ اس تنازعے کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے طے کیا جاسکتا ہے اور تشدد اور طاقت کے استعمال کے ذریعے اس کو حل نہیں کیا جاسکتا”۔
انھوں نے سرتاج عزیز سے اپنی ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ اس میں دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعاون بڑھانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ اس سال کے آخر میں دونوں ملکوں میں آزاد تجارت کا معاہدہ طے پاجائے گا۔
واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کی ہزمت (خدمت) تحریک کے ایک سو ساٹھ ممالک میں قریباً دو ہزار تعلیمی ادارے ہے۔پاک ترک آرگنائزیشن پاکستان میں گذشتہ اکیس سال سے کام کررہی ہے۔اس کے مختلف شہروں میں بیس سے زیادہ اسکول ہیں جہاں دس ہزار سے زیادہ طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
اس اسکول نیٹ ورک نے گولن تحریک سے کسی قسم کے تعلق سے انکار کیا ہے۔اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہمیں ان الزامات سے گہری تشویش لاحق ہے جن میں پاکستان میں پاک ترک انٹرنیشنل اسکولوں اور کالجوں کا فتح اللہ گولن سے ناتا جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان اسکولوں کا سیاسی یا مذہبی تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں ہے”۔