استنبول (جیوڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی نے یورو 2024 کی میزبانی کے لئے تمام شرائط کو پورا کر دیا ہے۔
صدر ایردوان نے فنک میڈیا گروپ کے صحافیوں کے لئے انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم یورو 2024 کی میزبانی کے فیصلے کے لئے ایک عادلانہ جائزے کی توقع رکھتے ہیں۔
ترکی کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں افواہوں کے حقیقت پر مبنی نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترکی سیاحتی حوالے سے بہت ڈنامک ملک ہے لہٰذا یورپی فٹبال چیمپئین شپ کے دوران اسٹیڈئیموں کے بھرنے ، اسپانسر اشتہارات کی آمدنی میں اضافے کے موضوعات پر کسی شک و شبہے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ ہم نے تقریباً تقریباً تمام بڑے شہروں میں ایسے بڑے پیمانے کی صلاحیت کے حامل اسپورٹس کمپلیکس ، اسٹیڈئیم اور اسپورٹس ہال تعمیر کئے ہیں کہ جو اکثر اوقات مغربی ممالک میں بھی نہیں ملتے۔ اگر UEFA مقصدی جائزے لے تو ان حقائق کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترکی ، 55 ائیرپورٹوں، تیز رفتار ٹرینوں اور رسل ورسائل کے بہترین انفراسٹرکچر اور موٹر ویز کا مالک ہے اور ہر سال 40 ملین سیاح اس کے ایک نقطے سے دوسری نقطے تک کا سفر کرتے ہیں۔
جرمنی کے 1974 ، 1988 اور 2006 میں 2 عالمی کپ اور ایک یورپی چیمپئن شپ کی میزبانی کی یاد دہانی کرواتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ میرے خیال میں ترکی جیسے تمام شرائط کو پورا کرنے والے اور فٹبال کے شیدائی ملک کو یورو 2024 کی میزبانی کا موقع دیا جانا چاہیے۔
مسعود اوزیل ،الک آئی گیون دوعان اور جنگ توسن کے ان کے ساتھ تصویر اتروانے سے متعلق بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس پر پشیمانی محسوس کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے لوتھر میتھوئس نے بھی روس کے صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ ملاقات کی تھی، ہمارے فٹبالروں کا آزادانہ طریقے سے اور ذاتی ارادے کے ساتھ حرکت کرنا ضروری ہے۔ مجھے اس معاملے پر تنقید کرنے والوں پر افسوس ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ مسعود اوزیل کے یہ الفاظ کہ ” اگر میں جیت جاوں تو جرمن ہوں اور اگر ہار جاوں تو مہاجر” جرمنی میں فٹبالروں کے امتیازیت کا سامنا کرنے کا بہترین خلاصہ ہے۔ مسعود اوزیل نے بلاوجہ جرمنی کی قومی ٹیم سے علیحدگی اختیار نہیں کی ان کی جگہ جو بھی ہوتا یہی کرتا”۔
انہوں نے کہا کہ نسلیت پرستی کے خلاف باہم متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم مسعود اوزیل کے ساتھ جرمنی میں پہلی دفعہ نہیں ملے بلکہ مختلف وسیلوں سے اور متعدد دفعہ ہماری ملاقات ہوئی۔ صرف وہی نہیں ہم مختلف ممالک میں ترک الاصل شہریوں کے ساتھ ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ مسعود کہ رہائش لندن میں ہے اور اگر میں لندن کے دورے پر ہوں تو آخر کیوں اس سے نہ ملوں ۔ اگر ترکی میں مقیم کوئی جرمن فٹبالر جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے ساتھ تصویر اتروائے تو کیا ہمیں اسے لٹکا دینا چاہیے ؟ میں اس منطق کو سمجھنے سے عاری ہوں۔